
عمران خان کی رہائی کا عوامی مطالبہ
پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کی رہائی کا عوامی مطالبہ زور پکڑ رہا ہے ،سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عوام کا شدید غم و غصہ دیکھنے میں آ رہا ہے ۔آج ٹویٹر یعنی ایکس پر بھی "عمران خان کو رہا کرو”ٹاپ ٹرینڈ ہے ۔
اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ سمیت دیگر بڑے چھوٹے شہروں میں عوامی رد عمل دیکھنے میں آ رہا ہے ،سوشل میڈیا پر شہری پارٹی جھنڈے اور عمران خان کی تصاویر پوسٹ کر رہےہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کی رہائی ہی جمہوریت کی بحالی کی طرف پہلا قدم ہو گا۔
علیمہ خان کی عمران خان سے ملاقات نہ ہونے پرسلمان اکرام راجا اور بشری بی بی پر تنقید
لیکن کیا سوشل میڈیا پر احتجاج رنگ لائے گا،تو جواب ملتا ہے نہیں ۔لیکن نو مئی کو ذہن میں رکھا جائے تو عوام میں جہاں غم و غصہ پایا جا رہا ہے وہیں لوگوں کو ایک ڈر بھی لاحق ہے کہ کہیں پھر سے قانون کے ہاتھ لگیں اور جیل کی ہوا کھانا پڑے ۔
اس حوالے سے علی امین گنڈا پور سمیت دیگر رہنماوں نے کئی بار احتجاج کی تاریخ کا اعلان کیا لیکن کوئی حتمی تاریخ ابھی تک سامنے نہیں آئی،اڈیالہ میں علیمہ خان نے بھی میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ احتجاج کے علاوہ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ۔
دی مائنڈ ڈاٹ پی کے نے عوامی رد عمل لیا جہاں بڑی تعداد میں شہریوں نے عمران خان کی رہائی کا تو مطالبہ کیا لیکن جب سوال کیا گیا کہ کیا آپ سڑکوں پر نکلیں گے اگر پارٹی قیادت کال دے تو
جس کے جواب میں 49فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ قیادت پر یقین نہیں ۔پچھلی بار بھی ڈی چوک پر فائنل کال کے وقت کارکنان تو ڈی چوک پہنچ گئے لیکن ہماری قیادت پولی کلینک چوک سے راہ فرار اختیار کر گئی
مائنس عمران خان کا مطلب پی ٹی آئی زیرو ہے خواجہ آصف
کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ عمران خان کے لیے سڑکوں پر آنے کو تیار ہیں لیکن کیا قیادت ہمارے ساتھ 9 مئی والا سلوک کرے گی ۔زیادہ تر لوگوں کا کہنا تھا کہ نو مئی کو قیادت کے کہنے پر احتجاج کیا لیکن لیڈران تو معافی مانگ کر عیاشی کر رہےہیں ،لیکن کارکنان جیلوں میں مر رہے ہیں ۔
عوامی رد عمل اور سروے بتاتا ہے کہ لوگوں میں عمران خان کی چاہت ضرور موجود ہے لیکن موجود قیادت پر لوگوں کا اعتماد نہیں ۔
اس حوالے سے حکومت کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خلاف کیسز قانونی دائرہ کار میں چلائے جا رہے ہیں اور کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جا رہا۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق عمران خان کی رہائی کا مطالبہ اب محض سیاسی کارکنوں تک محدود نہیں رہا بلکہ مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس تحریک میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔لیکن سوال وہیں پر آ کر رک جاتا ہے کہ اگر عملی جدوجہد کرنا ہو تو قیادت کون سی ہے جو لیڈ کرے گی
عمران خان اور بشری کیخلاف تہرے قتل کا پرچہ کٹ گیا
عمران خان کی رہائی کے لیے عوامی دباؤ میں اضافہ حکومت کے لیے ایک اہم چیلنج بنتا جا رہا ہے، اور ممکنہ طور پر اس کا اثر آئندہ سیاسی فیصلوں پر بھی پڑے گا۔