
اک خواب
اے قیدی بادشاہ اپنے دل کا بوجھ جھٹک دے : کہ جتنی اذیت تجھے زنداں میں ہے اس سے کہیں زیادہ اذیت مجھے میرے جسم میں ہے وہ اذیت اک خواب ہے جو میرے جسم کے انگ انگ سے پھوٹ رہا ہے
جس خواب کی کھڑکی پر میرا وجود میری ہی روح سے دست و گریباں ہوچکا ہے
میرا خواب ہے
کسی بچی کی آغوش میں
کوئی بلونگڑا کھیلتا
اس کی سرخ آنکھوں میں
ڈوب کر کسی شب
اندھیرے کے پیرہن میں جگنو بن کر چمکتا
میرا خواب ہے
میں کسی غریب ماں کی جھونپڑی کا دیا بنوں
وہ اس دیے کی روشنی میں
عینکیں آنکھوں پر سیدھی کرتے ہوے
اپنے بچوں کر جگاے اور کہے
ہمارے شہر میں
ہماری گلی میں ظلم کی بو آرہی ہے
بندوقوں کے آواز سے بچے ماوں کے سینے سے لپٹ رہے ہیں
بھوک سے پیٹ و کمر کا فرق کرنا مشکل ہوچکا ہے
اٹھو بیٹا؛
اس دیے کو لے جاو
اور اس ظلم کے شکنجے کو بھوک کے بدن کو
سر سے پاوں تک جلا ڈالو
میرا خواب ہے
میں اپنی ماں کو
اپنے سینے سے لگا کر کہوں
ماں تو نے اپنے بدن کی سو ہڈیاں توڑی
تب میرا جنم ہوا
اب ان ہڈیوں پر میرا فرض ہے
میں ان کے گوندوں میں
میں محبت کو بھروں
میری ماں سن
تو فقط میری ماں نہیں
تو قوم کے ہر بیٹے بیٹی کی ماں ہے
ان کی داستاں ہے
تجھ کو میں محدود سے لامحدود کرنا چاہتا ہوں
میرا خواب ہے
میں ہر بہں کے سر کی چادر بنوں
ہر ماں کا سپوت بنوں
ہر باپ کا پوت بنوں
ہر بھائی کا ہم راہ بنوں
اے میرے شہر کی فضیل پر کھڑے نفرت کے بیوپار کے متلاشی درندہ صفت آدمی اے میرے ہم نشینوں
میرے پانچ فٹ اور چار انچ کے جسم کا بس اتنا سا خواب ہے
میرا اک خواب ہے
اک خواب
ہے۔۔۔۔۔