
تعلیم کے بغیر ترقی ناگزیر ہے مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں فروغ علم کے لئے خاطر خواہ اقدامات اٹھا کر شرح خواندگی میں بتدریج اضافہ کیا جاتا ہے وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے سے لیکر آج تک شرح خواندگی میں اضافے کے بلند و بانگ دعوے اور وعدے کئے جاتے رہے ہیں مگر اہم بات یہ ہے کہ کیا سیاست دانوں نے تعلیم جیسے اہم مسئلے پر ہی سیاست کی ۔۔۔۔۔ زبانی جمع خرچ کیا یا کچھ اور بھی ۔۔۔۔ دور افتادہ علاقوں میں تعلیم کی تکمیل اور سہولیات کی بات الگ داستان ہے مگر شہر اقتدار میں طلباء کو دی جانے والی سہولیات کو واپس لینے کے عمل نے فروغ علم کے دعوؤں کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے ایوان زیریں میں بیس سکول بسوں کی بندش، ان سکول بسوں کو پنک بس منصوبے میں شامل کرنے اور وفاق کے سکولوں میں اساتذہ کی کمی کا معاملہ آج اٹھایا جارہا ہے،ممبران پارلیمنٹ کی جانب سے توجہ دلاؤ نوٹس جمع کرا دیا گیا ہے جو کہ قومی اسمبلی کے ایجنڈے کا حصہ ہے اس پر بات ہوگی اور اراکین پارلیمنٹ سے جاننے کی کوشش کرینگے کہ تعلیمی اہداف حاصل کرنے کی ناکامی کی درحقیقت وجوہات کیا ہیں ۔۔۔ سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ دیکھا جارہا ہے انہیں سکولوں میں لانے کےلئے سنجیدہ کوشش کی بجائے زیر تعلیم بچوں اور اساتذہ سے سہولیات واپس لینا کون سی تعلیم دوستی اور خیر خواہی ہے