
چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے فیصل واوڈا پریس کانفرنس ازخود نوٹس کی سماعت کی ، چیف جسٹس پاکستان کاایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے پریس کانفرنس سنی؟کیا پریس کانفرنس توہین آمیزہے؟، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے یہ ادارہ میرا نہیں بلکہ عوام کا ہے ادارے پرتنقید کوبرداشت نہیں کرینگے پہلےایک صاحب نے پریس کلب میں پریس کانفرنس کی ، پھرمصطفی کمال بھی سامنے آگٸے،ایسی گفتگوکرنے کیلئے پریس کلب کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ چیف جسٹس نےمزید کہاکہ باپ کے گناہوں کا ذمہ داربیٹا نہیں ہوسکتا اگرایک ایم این اے غلط ہے توسارے پارلیمان کوغلط نہیں کہہ سکتے مارشل لاء کی توثیق کرنے والوں کا کبھی دفاع نہیں کروںگا، ذوالفقارعلی بھٹوکوہم زندہ تونہیں کرسکتے،لیکن غلطی تومان لی ادارے کونشانہ بنانے کی اجازت نہیں دینگےاگرمیں نے کچھ غلط کیا تواسکی سزا دیگرججزکونہیں دی جا سکتی پارلیمان میں بھی ججزکے کنڈکٹ پربات نہیں کی جا سکتی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے اسکول میں بچے غطی تسلیم کرے تواستاد کا رویہ بدل جاتا ہے، حکم نامے میں کہاکہ آرٹیکل 19 آزادی اظہاررائے دیتا لیکن توہین عدالت نہ کرنے کی قدغن موجود ہے بادی النظرمیں فیصل واووڈا کی پریس کانفرنس توہین عدالت ہے،چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کوکیس میں استغاثہ مقرر کرتے ہوئے فیصل واوڈااور مصفطی کمال سے دو ہفتوں میں جواب طلب کرلیا عدالت نے پیمرا سے پریس کانفرنس کی ویڈیوریکارڈنگ اورٹرانسکرپٹ بھی طلب کرلیا سماعت 5 جون تک ملتوی کردی گئی۔۔۔۔۔۔