
تحریر.. ردا فاطمہ
کل سعید بک بینک جانا ہوا۔ کتاب والوں کے دکھ اور ہوتے ہیں جو الفاظ والے ہی سمجھ سکتے ہیں ۔ سو وہ دنیا اپنی اپنی لگی۔ ماہ رو میرے ساتھ تھیں اور انہیں بھوک لگ گئی ، وہ رونے لگیں۔ میں نے مینجر سے کہا آفس میں یا کرسی پہ بیٹھ جاؤں ؟ بیٹی رو رہی ہیں ۔انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ میں نے باہر آکے چوکیدار کا سٹول لیا اور شال اوڑھتے ہی ماہ رو کو پیٹ پوجا کروانے لگی ۔ ابھی میں فیڈ کروا رہی تھی کہ گارڈ انکل آکر کہنے لگے "اندر سے پیغام آیا ہے کہ انہیں باہر سے اٹھا دیں”۔ مطلب۔۔۔
دنیا کے پیمانے بھاڑ میں جائیں ۔ میرے لئے میری بیٹی زیادہ اہم ہے اور اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا میری ذمہ داری ہے ۔ پہلی بات تو اگر بچوں کو فیڈ کروانا بے حیائی ہے تو مردوں کو بچے پیدا ہی نہیں کرنا چاہئیں۔ دوسری بات کہ ماؤں کیلئے الگ کارنر بنا دینا چاہئیے۔ تیسری بات تھوڑی اخلاقیات سیکھ لینی چاہئیں کہ آپ کتاب بیچتے ہیں ۔
میرا خیال ہے ہر اس جگہ احتجاج کرنا چاہئیے جہاں زیادتی کی گئی ہو۔اور اپنی بیٹی کا حق مارنا تو مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔ میں قلم والی ہوں سو میں نے لکھ دیا ہے ۔آپ احساس والے بن سکتے ہیں ۔
میں پیراں تھلے جنت دا کیہ کرنا
مینوں دنیا وچ ٹرن دا موقا دے
نوٹ… یہ ردا فاطمہ کی دوہزار بائیں کی تحریر ہے…