
ہمارے ملک کا تعلیمی نظام اچھے انسان نہیں بلکہ گدھے پیدا کر رہاہے…سکول اور کالج میں آخری دن شرٹس اور کپڑوں پر بکواسات لکھنے ، دستخط کرنے اور بہترین ڈریس کو تباہ کرکے واپسی پر اپنی کاپیاں پھاڑ کر سڑکوں کو سفید کرنا اس بات کا ثبوت ہے
اس معاملے میں والدین بھی ذمہ دار ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت نہیں کرتے. .
صرف بچے پیدا کرنا کمال ہوتا تو کتے کے سال میں 6 سے 10 بچے پیدا ہوتے ہیں لیکن احساس ذمہ داری نہ ہونے اور تربیت کے فقدان کی وجہ سے کوئی ٹرک کے نیچے آ کر مر جاتا ہے ، کوئی نالی میں ڈوب کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے کسی کو اکیلا پا کر کوئی بچہ پتھر مار کر عمر بھر کیلئے معذور کر دیتا ہے.
ہم اشرف المخلوقات ہیں یہ شرف ہمیں تربیت دینے ، تہذیب یافتہ ہونے اور تہذیب کو اپنی نسل میں منتقل کرنے کی وجہ سے ملا ہے.
یہ بچے ہم میں سے ہی کسی کی اولاد ہیں لیکن افسوس کہ ان کے والدین نے اشرف المخلوقات سمجھنے کی بجائے کتا بن کر احساس ذمہ داری اور تربیت دینے سے خود کو مبرا سمجھا.
یہ کپڑے کسی غریب یتیم ، مفلس اور لاچار کو دے کر اسکی پریشانی میں کمی اور خود کیلئے ثواب کمانے کا ذریعہ بھی بنایا جا سکتا تھا.
نہایت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ہر شہر میں یہ فعل بد شروع ہو چکا ہے
والدین یاد رکھیں کہ سڑک پر یونیفارم پر گند بنے ہونے کی اس حالت میں چلتے ہوئے بچے کو دیکھ کر معاشرہ میں پہلی گالی ماں کو اور دوسری باپ کو دیتا ہے
فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ اپنی اولاد کی تربیت کرنی ہے یا سڑک پر خود کیلئے گالیوں کے گلدستے وصول کرنے ہیں