
کنجی اور دیگر خودرو سبزیاں
آزاد کشمیر کے پہاڑوں پر اور خصوصاً ضلع حویلی کہوٹہ اور نیلم ویلی کے جنگلات میں اپریل اور مئی میں یہ ایک خودرو جڑی اُگ آتی ہے جسے اس کی شکل کی وجہ سے کنجی کا نام دیا گیا ہے۔
پرانے وقتوں سے ہی خواتین جنگل جا کر اسے چن لاتی ہیں اور بطور سبزی پکاتی ہیں۔ یہ سبزی انتہائی ذائقہ دار ہوتی ہے۔ کچھ خواتین اس سبزی میں تھوڑا دودھ ڈال کر پکاتی ہیں جس کی وجہ سے اس کا ذائقہ دوبالا ہو جاتا ہے۔
گو کہ اب یہ رواج ختم ہوتا جا رہا ہے اور جدید
دور کی پڑھی لکھی لڑکیاں جب خاتون خانہ بنتی ہیں تو یہ خودرو جڑی بوٹیوں کو چن کر سبزی کے طور ہنڈی بنانا اپنی ذات کی توہین سمجھتی ہیں۔ اور مہنگی دالوں اور چکن وغیرہ پر گزارا کرنا مناسب سمجھتی ہیں۔
لیکن ماضی قریب تک یہ ہوتا آیا ہے کہ ہماری مائیں بہنیں اس بہار کی آمد والے سیزن میں شائد ہی کسی دن ان سبزیوں کا استعمال ترک کرتی تھیں۔ ہر روز پانچ چھ خواتین مل کر مختلف خودرو بوٹیوں کو چننے چلی جاتی اور جھولیاں بھر کے واپس آتی اور مزے سے پکا کے سب کو کھلاتی تھیں۔ اور ایک دوسرے کے گھروں میں بھی بطور تحفہ بھیجی جاتی تھیں۔
ان سبزیوں میں، کنڈور چھو، ہُولا، بتھوا للّوری اِرڑھی چمچرپتر، بنفشہ، کیاری، سنجلی، ہاند، رتی_ڈنی، پہانچے، دھودل، کالو، کیکرکےپتے، کیمری کےپتے، اور درجنوں دیگر اقسام کی جڑی بوٹیاں چن کے رنگ رنگ کے ذائقے والی سبزیاں پکا لیا کرتی تھی۔
جس کا ایک فائدہ یہ کہ دالوں اور بازاری سبزیوں کے خریدنے کے اخراجات سے شاندار بچت ہو جاتی تھی اور دوسرا یہ کہ بغیر اگانے اور لگانے کی محنت کے مفت میں صحت مند اور ذائقہ دار ترکاریاں میسر آ جاتی تھی۔ ان میں سے کچھ کڑوی سبزیاں بزرگ لوگ شوق سے کھاتے تھے کہ جسم سے مختلف بیماریوں کے زہر ختم کرنے کا سبب بنتی ہیں۔
علاؤہ ازین پورے سال گھر کے ساتھ بنی کیاریوں سے مختلف نوع کی سبزیاں ختم نہیں ہوتی تھی۔ برف پڑی ہوئی ہٹا کے بھی کچھ نہ کچھ سبزی نوچ لاتی تھی جو کہ سردی کے موسم میں منہ کے ذائقے کو تبدیل کرنے کا سبب بنتی تھی۔ پھر کچھ سبزیاں گرمیوں کے موسم میں خشک کر کے سیال کے لیے رکھ چھوڑی جاتی تھی جن میں گنہار اور کڑام کی سبزیاں شامل تھیں۔ تھوم، پیاز اور ٹماٹر تو ایسا ممکن ہی نہیں تھا کہ کسی گھر میں سال بھر کے لیے اپنی کیاریوں کا نہ ہو۔ اور کچھ سبزیوں کا اچار یا مربع بنا کے محفوظ کر لی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ، تریڑھیاں یعنی کھیرے، ڈوبریاں، چونیں، الّیں وغیرہ ٹھوس جسامت والی سبزیوں کی بیلیں خوبصورت انداز سے درختوں سے لٹک رہی ہوتی تھی۔ لیکن اب یہ سب قصّہ پارینہ بن چکا ہے۔
اب جدید دور ہے۔ کشمیر کی دنیا بھر میں مشہور زرخیز مٹی کو ہم نے سونا اگانے کے بجائے بنجر کر دیا ہے۔ اور پنجاب کے کھیتوں کی ناقص سبزیاں مہنگے داموں بڑے فخر سے خرید کے گھر لاتے ہیں جن کے حوالہ سے یہ بھی مشہور ہے کہ گٹروں کا پانی چھوڑ کر اگائی جاتی ہیں۔
بات چلی تھی کنجی کی سبزی سے تو مضمون باقی سبزیوں کی طرف بھی موڑ گیا۔
بہرحال آج بھی کم از کم ان خودرو سبزیوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
تحریر و تحقیق ۔۔۔۔۔ شاہد اقبال راٹھور