
مظفر آباد میں دریائے نیلم کے کنارے صدیوں سے کھڑا یہ لا ل قلعہ قدرتی آفات اور انتظامیہ کی عدم توجہ کے باعث دھیرے دھیرے ختم ہو رہا ہے۔

کشمیر کے حکمران چک خاندان نے سنہ 1549 میں اس لال قلعے کی بنیاد رکھی۔ اس کی تکمیل مظفر آباد شہر کے بانی سلطان مظفر کے دورِ حکومت میں سنہ 1646 میں ہوئی۔
ڈوگرہ سکھ حکمرانوں مہاراجہ گلاب سنگھ اور رنبیر سنگھ کے دور میں سیاسی اور فوجی مقاصد کے تحت قلعے میں توسیع کروائی گئی
تعمیر کے وقت اس قلعے کا رقبہ انسٹھ کنال تھا اور اس کے تین طرف دریا تھا۔ پہلے سنہ انیس سو بانوے کے سیلاب اور پھر سنہ دو ہزار پانچ کے زلزلے میں اس قلعے کا بہت بڑا حصہ منہدم ہوگیا۔
قلعے کے اکثر کمرے دریا برد ہو چکے ہیں اور باقی رہ جانے والے چند کمروں کی ایک یا دو دیواریں ہی باقی رہ گئی ہیں۔
لال قلعہ میں کئی قید خانے بھی ہیں جو متعدد کال کوٹھڑیوں پر مشتمل ہیں۔
قلعے کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہاں سیاح آتے ہیں لیکن اب ان میں زیادہ تعداد مقامی لوگوں کی ہی ہوتی ہے۔ سیاحوں کا کہنا ہے کہ اب اس قلعے میں دیکھنے کو کچھ رہا ہی نہیں۔