
تحریر: محمد اقبال میر
موسم گرما کے اختتام اور سردیوں کے آغاز میں کشمیر کا دیو مالائی حسن اُس وقت نکھر جاتا ہے جب درختوں سے سنہری رنگوں میں تبدیل پتے درختوں کی ٹہنیوں سے جھڑنے شروع ہو جاتے ہیں خاص کر چنار کے درخت سے جھڑنے والے پتے زمین پر کالین بچھا لیتے ہیں اور پاؤں کے نیچے پتوں کی سرسراہٹ کی آواز وقت کے گزرنے اور زندگی کے تیز رفتار فطرت کی یاددہانی کے طور پر کام کرتی ہے۔ سردیوں میں برسات سے ٹھنڈک کا احساس بڑھ جاتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کشمیر کے بلند پہاڑی سلسلے برف کی سفید چادر اوڑھ لیتے ہیں اور خوبصورت سا سما ں پیدا ہو جاتا ہے اور یوں کشمیر کا حسن دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
کشمیر کے برف پوش پہاڑ اور وادیاں بہار کی آمد کی منتظر دکھائی دیتی ہیں اور یوں برسات کے موسم میں درختوں کی ٹہنیوں سے پتے نکلنے لگتے ہیں یوں لگتا ہے جیسے بہار اپنے پنجے گاڑھنے کیلئے بے تاب ہو۔
جنت نظیر وادی کشمیر کے موسموں کا جائزہ اگر اس طرح سے لیا جائے کہ 1947 ء میں ایک تحریک کا آغاز 13 جولائی 1931 ء کے شہداء کی قربانیوں کے تسلسل میں اکتوبر کے اختتام اور نومبر 1947 ء کے آغاز میں پاکستان سے محبت کی پاداش میں لاکھوں کشمیری شہید ہوئے ہیں، یوں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں اس سے بڑی قربانی شاید تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔ 77سالوں سے یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا ہے اور اب ایسے لگ رہا ہے جیسے پت جڑ کے موسم میں آہستہ آہستہ ہندوستان کے مکروہ عزائم خاک میں ملتے جارہے ہیں اور یوں ہوا کا جونکاثابت ہوتے ہی جیسے سرد موسم میں جدوجہد آزادی آخری مراحل میں داخل ہوگی اور پھر آزادی کی بہار شروع ہوگی اور کشمیری اپنی منزل کی طرف گامزن ہو جائیں گے اور انہیں ان کی قربانیوں کا ثمر ملے گا۔ اس سارے مرحلے میں جس کو ہمیشہ پیچھے دھکیلنا ہے اور وہ صرف مایوسی ہے جس سے ہمیشہ بچنا ہے۔
خامیوں کے سدباب کیلئے قوم کے اندر شعور انتہائی لازمی ہے، تحقیق کے دامن کو ہاتھ سے پکڑ کررکھنے سے ہی منزل ملتی ہے اور منزل بے شک 99 فیصد ناکامی اور ایک فیصد کامیابی کے بعد شروع ہوتی ہے اور بالآخر سو فیصد کامیابی پر عروج حاصل کرلیتی ہے۔
نومبر 1947 ء کا پہلا عشرہ تاریخ کا سیاہ ترین باب رقم کر چکا ہے، یعنی 1 فیصد کامیابی اور 99 فیصد اس میں نقصان کے سوا کچھ نہیں تھا، لیکن منزل کا تعین ہو جائے تو پھر منزل مل کر ہی رہتی ہے بے شک اس میں کتنے ہی کانٹے راستے میں آئیں۔ تاریخ گواہ ہے منزلیں اسی قوم کو ملتی ہیں جن کے حوصلے چٹان کی طرح ہوں اور اپنے کاز کے ساتھ مخلص ہو۔
آزاد جموں و کشمیر میں یوں تو 24 اکتوبر 1947 ء میں حکومت قائم ہوئی ہے مگر اس سے پہلے ریاست جموں وکشمیر پر قبضے کیلئے ہندوستان اپنے منصوبے بنا چکا تھا جس کیلئے پھر کشمیریوں نے عزم انقلاب کی طرف توجہ دی اور 22اکتوبر کو مظفرآباد فتح ہوا۔ 24 اکتوبر کوآزادکشمیر میں ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا گیاتھا۔ پھر ہندوستان کے عزائم 27 اکتوبر کو کھل کرعیاں ہوئے اور 9 نومبر 1947 تک مقبوضہ ریاست جموں وکشمیرمیں خون کی ندیاں بہائی گئیں، یہ تاریخ کے سیاہ باب کشمیری کسی صورت بھی فراموش نہیں کرسکتے۔
اب چونکہ ہندوستان ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہے اور اس ٹیکنالوجی کا زیادہ استعمال ہمیشہ پاکستان اور کشمیریوں کے مخالف ہوا ہے۔ لہذا دور جدید میں ہندوستان اپنا جھوٹ پوری دنیا میں بیچ رہا ہے اور ہمارا سچ دنیا کے سامنے بے معنی نظرآرہا ہے وجہ صرف اتنی سی ہے کہ ہمیں مضبوط ارادوں کو جلا بخشنی ہوگی، پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
تاریخ کا ایک باب یہ بھی ہے کہ جب کشمیریوں نے پاکستان بننے سے قبل پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تھا اسی فیصلے کے پیش نظر ہی ہم منزل کی طرف گامزن ہو سکتے ہیں، مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر کی عوام نے جو لازوال قربانیاں آزادی کیلئے اور بالخصوص پاکستان کیلئے پیش کی ہیں تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جانے کے قابل ہیں، مگر افسوس ان قربانیوں کا ثمر آزادکشمیر کے حکمرانوں کی وجہ سے ملتا نظر نہیں آرہا ہے آزادکشمیر کے حکمرانوں کے پاس کوئی واضح پالیسی نظر نہیں آرہی ہے جس سے وہ آزادکشمیر کے لوگوں کو بھی اعتماد میں لے سکیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کے معروف سیاسی کارکن انجینئر رشید نے لائن آف کنٹرول کے آخری گاؤں مقبوضہ علاقے سدھ پورہ میں جو نشاندہی کی اور پانی کا جومسئلہ بیان کیا ہے اس میں ساری بات جھوٹ کا پلندہ نہیں تھی، پانی کی نہر میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ انجینئر رشید کے مقبوضہ علاقوں بارے مسائل پر آزادکشمیر کے وزیر تعلیم کا رد عمل دیکھنے کو ملا، وزیرتعلیم کا وہ بیان جو انہوں نے آخری گاؤں میں دیا کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں سڑکوں، تعلیم اور صحت کیلئے فنڈز دینے کیلئے تیار ہیں حیران کن تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ آزادکشمیر میں حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی بدولت دو لاکھ سے زائد بچے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں، ایسے بھی بچے ہیں جن کے پاس سکول جانے کیلئے بھی سرمایہ نہیں ہے اور ان کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہ حکومت پاکستان آزادکشمیر کی تعمیروترقی کیلئے فنڈز نہیں دے رہی مگر یہاں زیادہ مفاد حکمران طبقہ اپنے سیاسی مستقبل کو دوام بخشنے پر خرچ کردیتا ہے۔صحت تعلیم اور روزگار یہ بنیادی ضرورتیں ہیں۔ مزدور سرکاری ہسپتالوں میں ایک پرچی تک مفت نہیں ملتی وہ بے چارہ ادویات مفت کیسے حاصل کرے گا، ایسے منصوبے بنائے جائیں جس سے عوام اور تحریک آزادی کو فائدہ ہو۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کے بجائے آزادکشمیر کے حکمران تمام رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کو اعتما د میں لیں جس طرح سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی نظریات کو تقویت دینے میں وقت دیتی ہیں، ہر لیڈر اپنے علاقے میں واہ واہ سمیٹنے اور الیکشن کی تیاریوں میں مصروف دکھائی دیتا ہے ایسے ہی وہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی آزادی کیلئے بھی کام کرے تب جا کر منزلیں ملتی ہیں۔ مظفرآباد میں پیپلزپارٹی حلقہ تین کا ورکرز کنونشن ہوا مگر یہاں بھی ٹوٹی نلکے اور کھمبے کی سیاست پر توجہ مرکوز رہی کوئی بھی کشمیر کی آزادی کی بات کرتا ہے اور نہ ہی مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے حق میں بات ہوتی ہے۔ یہ روایتی نظام اب تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اس کیلئے تمام سیاسی جماعتیں اپنی واضح پالیسی بنائیں۔ یہ بات ہمیشہ ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جو قومیں اپنے اسلاف کی قربانیو ں کو بھول جاتی ہیں و ہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں، آزادکشمیر کا اقتدار یہ عبوری نظام کے تحت ہے اگر یہ لوگ صرف اپنے مفادات کو ترجیح دیتے رہے تو یہاں خوشحالی آسکتی ہے نہ ہی آزادی کی تحریک آگے بڑھ سکتی ہے۔ خواہ مخواہ افرا تفری کے بجائے آزادکشمیر کو درست سمت پر لے جانے کی ضرورت ہے، چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو موثر بنانے کی ضرورت ہے، جس مقصد کیلئے یہاں آزادی کا بیس کیمپ ہے اس پر فوکس کیئے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہے۔
آزادکشمیر میں وہ مہاجرین جو مختلف کیمپوں میں آباد ہیں وہ آزادکشمیر کے فرسودہ نظام سیاست میں نظر ہی نہیں آرہے ہیں، جن کی قربانیوں کی بھی ایک تاریخ ہے۔ آج سوشل میڈیا کا دور ہے۔ کشمیر کاز سے نہ حکمران خود کو الگ کر سکتے ہیں نہ ہی یہاں کے سیاستدان، لہذا اگر انہوں نے تحریک آزادی کا دامن چھوڑ دیا اور اسی مفاداتی سیاست کو آگے بڑھاتے رہے تو پھر منفی سوچ کو کیسے روکا جاسکتاہے۔ اس لیئے ہندو ستان کے مکروہ عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے ضروری ہے کہ آزادکشمیر کے حکمران مہاجرین جموں وکشمیر سے نظریں چرانے کے بجائے انہیں اپنے سینے سے لگائیں، ان کی مشکلات کو سمجھتے ہوئے ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل حل کریں ان کیساتھ کھڑے ہو کر آزادی کی تحریک کیلئے کوششیں کریں یا پھر انہیں ساتھ رکھ کر آزادی کیلئے جدوجہد کریں۔ ہماری غلطیاں ہمیں لے ڈوبیں گی اگر ہم درست سمت پر گامزن رہے انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب آزادکشمیر کا خطہ بھی خوشحال ہوگا اور مقبوضہ جموں وکشمیر بھی بھارت کے چنگل سے آزاد ہوگا، پاکستان کشمیریوں کی منزل ہے اور یہ منزل انشاء اللہ پھر کشمیریوں کو مل کر رہے گی۔