
تحریر۔۔۔ ضمیراحمد ناز
بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارت کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے ہٹ دھرمی اور دھونس پر مبنی انکار کی صورتحال میں کشمیریوں کی سیاسی اور عسکری جدوجہد 1988 میں تیز تر ہوئی۔ گزشتہ 35 سال کے دوران ایک لاکھ سے زائد کشمیری بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہید کیے گئے اور کشمیری فریڈم فائٹرز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے بھارتی فوجیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ بھارت کشمیریوں کے خلاف فوج کے قتل و غارت گری سمیت ہر طرح کے ظلم و ستم کا حربہ استعمال کر نے کے باوجود کشمیریوں کے عزم آزادی کو دبانے میں اب تک ناکام چلا آ رہا ہے۔
بھارت نے کشمیریوں کے مطالبہ آزادی کو دبانے کے لئے خواتین کی عصمت دری کو ایک جنگی حربے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں کشمیری خواتین کی عصمت دری کے ہزاروں واقعات پیش آئے ہیں جن میں اجتماعی عصمت دری کے کئی واقعات بھی شامل ہیں۔ سرینگر میں شال ٹینگ کے قریب ایک بارات کو بھارتی فوج نے روک لیا اور دلہن کو گاڑی سے اتار کر نزدیکی فوجی پکٹ میں لے جا کر اس کی عصمت دری کی گئی۔ اسی طرح بارات کو راستے میں روک کر دلہنوں کی عصمت دری کے مزید واقعات بھی ریکارڈ پہ موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشمیریوں کے خلاف عصمت دری کے بدترین عمل کو جنونیت کے انداز میں ایک جنگی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
23فروری 1991 کو بھارتی فوج کی 4 راجپوتانہ رائفلز نے ضلع کپواڑہ کے دو گاؤں کنن اور پوش پورہ کو گھیرے میں لینے کے بعد تمام آبادی کو گھروں سے نکال کر مردوں اور خواتین کو الگ الگ کر دیا۔ مردوں کو بندوق کی نوک پر ایک جگہ جمع کرنے کے بعد بھارتی فوجیوں نے ان پر شدید تشدد کیا۔ عینی شاہدین کے مطابق بھارتی فوجی شراب کے نشے مین دھت تھے اور وہ نعرے لگاتے ہوئے سب کو مار دینے کی باتیں کر رہے تھے۔ اس کے بعد بھارتی فوجیوں نے کنن اور پوش پارہ نامی دیہاتوں کی خواتین کی اجتماعی عصمت دری کا بھیانک عمل شروع کر دیا اور اس دوران دس سال کی معصوم بچی سمیت 70 سالہ خاتون کی بھی عصمت دری کی گئی۔
بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں کنن اور پوش پورہ نامی دیہاتوں میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں عصمت دری کی شکار خواتین کی تعداد 59 سے زائد بتائی جاتی ہے جبکہ دو سو سے زائد مرد بھارتی فوجیوں کے تشدد سے شدید زخمی ہوئے۔ اس اندوہناک واقعہ کے منظر عام پہ آتے ہی دنیا بھر میں بھارت کی شدید مذمت سامنے آئی اور بھارت کو عالمی سطح پہ سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی کوشش سے عصمت دری کی شکار 23 خواتین کے کیس عدالت میں پیش کیے گئے لیکن سالہا سال گزرنے کے باوجود اس مقدمے میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ اس سے ایک بار پھر واضح ہوا کہ بھارتی عدلیہ کشمیریوں کے خلاف بھارتی فورسز کے غیر انسانی سلوک کی صورتحال میں انصاف کرنے کے بجائے بھارتی حکومت کے لئے سہولت کاری کا کردار ادا کر رہی ہے۔
عالمی دباؤ کی صورتحال میں کنن اور پوش پورہ میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں درجنوں خواتین کے عصمت دری کے واقعہ کے دو ہفتے بعد 8 مارچ کو اس واقعہ کی تریہگام پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کی گئی اور مارچ کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مفتی بہا الدین فاروقی کی سربراہی میں ایک فیکٹ فائنڈنگ وفد نے کنن اور پوش پورہ کا دورہ کرتے ہوئے انسانیت سوز واقعہ کی تفصیلات جمع کیں۔ ہائیکورٹ وفد نے 53 خواتین کے انٹرویو کیے اور سب نے بھارتی فوجیوں کے خلاف عصمت دری کیے جانے کی تصدیق کی۔
آزاد ذرائع کے مطابق کنن اور پوش پورہ کے دیہاتوں میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں عصمت دری کی شکار لڑکیوں، خواتین کی تعداد دو سو سے زائد ہے۔ کنن اور پوش پورہ کے لوگ تیس سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی صدمے کی حالت میں ہیں۔
انسانی حقوق کی ایک مقامی تنظیم کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی فورسز نے 1989 سے 2020 کے درمیان 11,224 خواتین کی عصمت دری کی جن میں 11 سال سے کم عمر اور 60 سال کی خواتین بھی شامل تھیں۔ بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں کئی انسانیت سوز کالے قوانین نافذ کر رکھے ہیں اور ایسے ہی ایک قانون (AFSPA) کے تحت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کو کشمیریوں کے خلاف قتل و غارت گری، تشدد سمیت ہر طرح کی کارروائیوں میں کسی تادیبی کارروائی سے مکمل استثناء حاصل ہے یعنی ان کے خلاف کسی کشمیریوں کے خلاف کسی بھی قسم کے جرم پر کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق بھارتی فوجی شہری علاقوں، دیہاتوں کا گھیراؤ کرنے کے بعد مردوں کو گھروں سے نکال کر ایک جگہ جمع کرتے ہیں ا ور پھر گھروں میں تلاشی کے بہانے توڑ پھوڑ اور خواتین کی عصمت دری کی جاتی ہے۔
بین الاقوامی انسانی قانون (IHL) اور بین الاقوامی انسانی حقوق قانون (IHRL) کے تحت جنسی تشدد کو کنٹرول کرنے والی شقوں کی بھارت مقبوضہ کشمیر میں کھلے عام خلاف ورزی کر رہا ہے جبکہ بھارتی حکومت نے 1949 کے جنیوا کنونشنز کی توثیق کی ہے جو مشترکہ آرٹیکل 3 حکومت اور عسکریت پسند قوتوں دونوں کی طرف سے غیر جنگجوؤں کے قتل، تشدد اور ناروا سلوک کو منع کرتا ہے۔ جنیوا کنونشن IV آرٹیکل 27 کہتا ہے، ”خواتین کو ان کی عزت پر ہونے والے کسی بھی حملے، بالخصوص عصمت دری، جبری عصمت فروشی، یا کسی بھی قسم کے غیر اخلاقی حملے کے خلاف خاص طور پر تحفظ حاصل ہونا چاہیے“ ۔ 1977 کا ایڈیشنل پروٹوکول II ”ذاتی وقار پر غصہ، خاص طور پر ذلت آمیز سلوک، عصمت دری، جبری جسم فروشی، اور کسی بھی قسم کے غیر اخلاقی حملے“ کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔۔۔
کنن پوش پورہ کے اس انسانیت سوز واقعہ کی ابھی تک شنوائی نہیں ہوسکی جس کی ہر سال پرزور مذمت کی جاتی ہے۔لیکن انسانیت کے قاتل بھارت کی عدالتیں ابھی تک انصاف نہیں کرسکیں۔ نہ ہی عالمی انسانی حقوق کے علمبرداروں نے اس کا نوٹس لیا۔۔۔۔