
تحریر۔۔۔۔ :محمد شہباز
جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر پھر ایکبار سرخرو ٹھری ہے اور اللہ تعالی جو ہر شر میں سے خیر برآمد کرتا ہے۔ 23 فروری کو جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام میں بی جے پی بالعموم اور بھارتی وزارت داخلہ باالخصوص جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے اندر جو نقب لگانا چاہتی تھیں اس میں انہیں ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر پر فروری 2019 میں جب لیتہ پورہ پلوامہ میں مودی نے خود ہی اپنے 44 فوجیوں کو مروایا تھا،تو بھارتی وزارت داخلہ نے پہلی فرصت میں جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر پر پانچ سالہ پابندی یہ کہہ کر عائد کردی کہ جماعت اسلامی بحیثیت مجموعی اور جماعت کیساتھ افراد بھارتی سلامتی اور استحکام کے خلاف سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں لہذا جماعت اسلامی کو اسی الزام کے دائرے میں لاکر کالعدم قرار دے دیا گیا۔بات صرف پابندی تک محدود نہیں رہی ، بلکہ جماعت اسلامی کے تقریبا پانچ ہزار کارکن گرفتار کرکے انہیں مقبوضہ جموں وکشمیر کے علاوہ بھارت کی دور دراز جیلوں میں پابند سلاسل کیا گیا-جن میں امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر عبدالحمید فیاض اور صف اول کی قیادت بھی شامل ہے۔حالانکہ جناب عبدالحمید فیاض Thyriod میں مبتلا بھی ہیں،مگر وہ بدستور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ پابندی کے نتیجے میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام سینکڑوں تعلیمی ادارے جو فلاح عام ٹرسٹ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔بند کردیئے گئے۔جس کے نتیجے میں سوا لاکھ طلبا و طالبات زیور تعلیم سے پہلی فرصت میں محروم جبکہ تیس ہزار سے زائد ملازمین بےروز گار ہوگئے۔جماعت اسلامی کے دفاتر’ تعلیمی ادارے اور دوسری ملکیت پر قبضہ کیا گیا۔ بھارتی پابندی کے باعث جماعت کا پورا انفراسٹرکچر مکمل طور پر غیر فعل ہوگیا۔

بھارتی پابندیوں کے علی الرغم جماعت اسلامی نے معاشرے میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے یا اٹھان کو روان دواں رکھنے کیلئے ایک پینل معرض وجود میں لایا،جس کی سربراہی کا رقعہ فال رکن جماعت غلام قادر وانی کے نام نکلا۔ پینل میں غلام قادر لون اور دوسرے افراد بھی شامل تھے تاکہ زمام کار کو بہتر انداز میں چلایا جاسکے۔امیر جماعت اسلامی سمیت پوری قیادت بھارتی جیلوں میں مقید ہونے کے باعث پینل کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملا،یہاں تک کہ پینل کے کرتا دھرتا اندر خانے بھارتی وزارت داخلہ خاصکر بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کیساتھ ساز باز کرتے رہے اور ان تمام سرگرمیوں کا بھانڈا گزشتہ برس اس وقت پھوٹ گیا جب غلام قادر وانی کا ایک انٹرویو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، جس میں موصوف نے خود کو امیر جماعت اور تمام معاملات کا مختار کل ٹھرایا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کرنا ضروری سمجھا کہ جماعت اسلامی ریاستی اسمبلی انتخابات میں حصہ بھی لے گی۔اس مذکورہ انٹرویو پر جماعت اسلامی کے حلقوں میں بڑے پیمانے پر شدید بے چینی کا اظہار اور پینل کیساتھ لاتعلقی کا اعلان برات کیا جاتا رہا۔
پورے مقبوضہ جموں وکشمیر میں ایک اضطرابی کیفیت نے جنم لیا۔ پینل کے خلاف اخبارات میں مضامین شائع ہونے کے علاوہ سوشل میڈیا پر ان کی ملامت کی جاتی رہی۔حالات کی سنگینی کا احساس اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ امیر حزب المجاہدین اور متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سید صلاح الدین احمد نے ایک سخت بیان ذرائع ابلاغ کے نام جاری کیا ،جس میں غلام قادر وانی کو نام نہاد پینل سربراہ کے القاب سے مخاطب کیا گیا۔چونکہ پینل سربراہ اور دوسرے افراد بہت آگے جاچکے تھے۔انہوں نے گزشتہ برس اکتوبر میں ریاستی اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کپواڑہ،بارہمولہ اور اسلام آباد اضلاع میں امیدوار بھی کھڑے کیے،مصلحت پسند اور ناعاقبت اندیش امیدواروں نے جماعت کیساتھ وابستہ لوگوں کو ووٹ نہ ڈالنے کی صورت میں دھمکیاں بھی دلوائیں، گو کہ انہیں جماعت کے حلقوں کے علاوہ شدید عوامی غیض و غضب کا بھی نشانہ بننا پڑا لیکن وہ امیت شاہ کی فراق میں تمام حدود پھلانگ چکے تھے۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم کے مصداق پینل کو شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ ایک طرف غلام قادر وانی اور غلام قادر لون بھارت کی محبت میں ہلکان تھے تو دوسری جانب جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر پر اکتوبر 2024 میں پھر ایکبار پابندی کی مدت میں پانچ سالہ توسیع کی گئی۔اس اقدام نے پینل کیساتھ وابستہ افراد کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا اور وہ منہ چھپاتے پھرتے رہے۔ 23جوالائی 2024 میں امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر عبدالحمید فیاض کو اپنے بیٹے کی شادی میں شرکت اور قیم فہیم محمد رمضان کو پیرول پر چند دن کیلئے جیل سے چھوڑ دیا گیا تو واقف کار حلقوں کا کہنا ہے کہ ان دونوں حضرات سے پینل کی جانب سے بندوق کے بل پر مجبور کیے جانے کے بعد ویڈیو پیغام کے ذریعے پینل کے حق میں بیان دلوایا گیا،حالانکہ ان کی بدن بولی Body language ان کے الفاظ کی چغلی کھارہی تھیں۔ حالات کے تمام تر جبر کے باوجود جماعت اسلامی کے حلقوں اور افراد نے خود کو پینل سے لاتعلق رکھا اور پھر وقت نے بحیثیت مجموعی جماعت کے کارکنان، ہمدردوں اور رفقا کے فیصلے کو درست ثابت کیا۔ پینل اور اس کے عہدیداراں ہر گزرتے لمحات کیساتھ بے نقاب اور ان کا ہر اقدام جماعت اسلامی کی بنیادی آساس کی بیخ کنی کیلئے شمار کیا گیا۔

جماعت اسلامی کو بھارتی وزارت داخلہ کی گود میں بٹھانے کی کوشش میں جب پینل مکمل طور پر ناکام ہوا تو اس نے اپنے ترکش کا آخری تیر بھی چلانے کا فیصلہ کیا۔23 فروری 2025میں جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام میں شمیم ٹھوکر اور سیار ریشی نے ایک روزہ کنونشن کے نام پر سرکس سجایا۔البتہ یہاں بھی ان دونوں سے بڑی چوک ہوگئی۔ان کے کنونشن کو بھارتی حکومت کی طرف سے فول پروف سیکورٹی فراہم کی گئی،گوکہ کنونشن میں چند درجن افراد ہی شریک ہوسکے اور سوشل میڈیا پر کنونشن کو لائیو دکھایا جارہا تھا جس میں لوگوں کیلئے لگائی جانے والی کرسیاں خالی پڑی نظر آرہی تھیں۔ حالات کی نزاکت کو بھاپنتے ہوئے نہ غلام قادر وانی اور نہ ہی غلام قادر لون اس میں شریک ہوئے جبکہ سابقہ امیر جماعت اسلامی محمد عبداللہ وانی نے کنونشن سے لاتعلقی اور یہ تبصرہ کرنا مناسب سمجھا کہ یہ لوگ بہت آگے جاچکے ہیں اب یہ خود ہی اپنے کیے کے ذمہ دار ہوں گے۔ان کا اشارہ غلام قادر وانی اور غلام قادر لون کی جانب بھی تھا۔
بھارتی فوجیوں کے چھتر چھایا میں کولگام میں کنونشن ایک ایسے موقع پر منعقد کیا گیا جب 16 فروری سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر اور وادی کشمیر کے دوسرے اضلاع میں بھارتی پولیس نے درجنوں کتابوں کی دکانوں پر چھاپوں کے دوران اسلامی دنیا کے معروف سکالر اور بانی جماعت اسلامی سید ابو الاعلی مودودی اور تحریک آزادی کشمیر کے بطل حریت سید علی گیلانی کی سینکڑوں تصانیف یہ کہہ کر ضبط کرلیں کہ کالعدم تنظیموں کے نظریے کو فروغ دینے والے لٹریچر کی خفیہ فروخت اور تقسیم قابل قبول نہیں ہے۔
ان حالات میں خود کو جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کیساتھ وابستہ قرار دینے والے افراد مربوط سیکورٹی میں کنونشن کا انعقاد کرکے جسٹس اینڈ ڈیو لپمنٹ فرنٹ کے قیام کا نہ صرف اعلان کرتے ہیں،بلکہ جماعت اسلا می مقبوضہ کشمیر کے پرچم سے مسابقت والاجھنڈا بھی جاری کرتے ہیں، جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ فرنٹ کے قیام پر جہاں سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہوچکا ہے کہ ایک اور اخوان کی داغ بیل ڈالی گئی ہے لہذا جماعت کیساتھ وابستہ افراد خود کو اس اخوان ٹو سے دور رکھیں،کیونکہ ان لوگوں کو مودی حکومت کی آشر واد حاصل ہے،سوشل میڈ یا پر ایک صارف Emm Nazar نے بڑا کمال کا تبصرہ کیا ہے،وہ رقمطراز ہیں: مشکلات تو ان ناہنجاروں نے کھڑی کیں جنہوں نے اپنے فکری ارتداد کیلئے گرین سگنل حاصل کرنے کیلئے ڈاکٹر صاحب ( عبدالحمید فیاض) کے دروازے پر دو ٹکے کے صحافی بھیجے۔مرتا کیا نہ کرتا،بندے نے دو لفظ کیا بول دیئے ،گیدڑوں نے Eureka کا نعرہ مستانہ لگانا شروع کیا۔یہ JDF کے قیام پر اب تک کا بہترین اور ایٹم بم سے زیادہ وزنی تنقیدی تبصرہ ہے۔مذکورہ صارف کو ڈرانے دھمکانے کی مذموم کوشش بھی کی جارہی ہے،جو کہ بھارتی ایجنسیوں کا وطیرہ ہے ،جو اخوان الشاطین کے قیام کے شروع کے ایام میں بھارتی فوجیوں کی مدد سے تحریک آزادی کیساتھ وابستہ افراد کا قتل،ان کے باغات کاٹنے اور گرفتاریاں قابل ذکر ہیں۔
جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ فرنٹ کے قیام پر جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر نے اپنے ایک بیان میں اپنے بنیادی اصولوں اور نظریے کے تئیں اپنی غیر متزلزل وابستگی کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جماعت کا BJP کے کسی بھی حمایت یافتہ گروہ یا فرد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔جماعت اسلامی کے ترجمان پیر نصیب الدین شاہ نے بی جے پی کے نام نہاد پینل یا اس سے منسلک کسی تنظیم کی سرگرمیوں، فیصلوں یا سیاسی عزائم میں براہ راست یا بالواسطہ ملوث ہونے کی تردید کی اور ساتھ ہی واضح کیا کہ بعض عناصر جماعت اسلامی کو اپنی سرگرمیوں سے جوڑ کر انتشار پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔بیان میں پلوامہ کے رہائشی شمیم ٹھوکر کے کردار کی طرف بھی عوام کی توجہ مبذول کرائی گئی، جن کے بارے میں ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کیلئے کام اور عوام کو گمراہ کرنے کیلئے تفرقہ انگیز کردار ادا کر رہے ہیں ۔تنظیم نے ایسے عناصر کے خلاف انتباہ جاری کرتے ہوئے کشمیری عوام پر زور دیا کہ وہ فریب کاری کے ہتھکنڈوں سے چوکس رہیں جن کا مقصد جماعت کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔جماعت اسلامی نے اسلامی اصولوں، انصاف اور معاشرتی اقدار کیلئے اپنی وابستگی کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مشن کسی بھی بیرونی اثر و رسوخ سے قطعی طور پر آزاد ہے۔ترجمان نے مزید کہا کہ وہ اپنے اہداف کے حصول کیلئے پرامن اور قانونی طریقوں پر یقین رکھتی ہے لیکن اس پر عائد پابندی کی وجہ سے اس نے اپنی تمام سرگرمیاں روک دی ہیں۔بیان میں امیر جماعت ڈاکٹر عبدالحمید فیاض اور پولیٹیکل بیورو چیف ایڈووکیٹ زاہد علی لون سمیت اپنی قیادت کی حالت زار پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا، جو کئی برسوں سے بھارتی قید میں ہیں۔
تنظیم نے اہل کشمیر سے مطالبہ بھی کیا کہ وہ غلط معلومات پر مبنی مہمات کو مسترد کریں۔ وہیں متحدہ جہاد کونسل نے بھی اپنے ایک بیان میں واضح کیا کہ بد قسمتی سے کچھ طالع آزما اور مفاد پرست عناصر قابض سامراج کے آلہ کار بن کر فقیدالمثال قربانیوں سے مزین اس عظیم الشان تحریک کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف عمل ہیں اور پھر بیس کیمپ کی تائید و حمایت کا تاثر بھی دیا جارہا ہے جو ان کی مجرمانہ ذہنیت کی عکاس ہے۔حالانکہ بیس کیمپ کی پوری قیادت ان عناصر کی سرگرمیوں کو ایک برہنہ غداری تصور کرتی ہے اور انہیں دین و دنیا کی رسوائی اور عبرتناک انجام سے بچنے کیلئے ایسی تمام سرگرمیوں سے باز رہنے کا مشورہ دیتی ہے۔
متحدہ جہاد کونسل نے اپنے بیان میں حریت پسند اہلیان وطن کو مخاطب کرتے ہوئے اپیل کی ہے کہ وہ JDFجیسے نت نئے ناموں سے ان مفاد پرستوں کے جھانسے میں نہ آئیں بلکہ تائید و نصرت الہی سے اعلائے کلمتہ اللہ و آزادی کی جد وجہد کو جاری و ساری رکھیں۔جبکہ امیر جماعت اسلامی آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے بھی اپنے بیان میں JDFکے قیام کو بھارتی ایجنسیوں کی کارستانی قرار دیکر جدوجہد آزادی میں مصروف عمل کشمیری عوام سے مذکورہ بھارتی ایجنسیوں کی پروردہ تنظیم سے لاتعلق رہنے کی اپیل کی ہے۔ ان واضح بیانات کے بعد کیا کوئی ذی حس JDF کیساتھ وابستگی کے بارے میں سوچ بھی سکتا ہے؟ جماعت اسلامی کے کارکنان پر یہ ذمہ داری عائد ہونے کیساتھ ساتھ یہ فرض بھی ہے کہ وہ جماعت اسلامی کی اساس جو کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام ہے، کا تحفظ لازم اور ناگزیر ہے۔اسے پہلے بھی جماعت اسلامی سخت اور مشکل حالات سے گزر چکی ہے، البتہ یہ بات مسلم ہے کہ جماعت کیساتھ وابستہ افراد نے ہمیشہ خود کو تاریخ کے درست سمت کی جانب گامزن رکھا،جس کا اعتراف جماعت کے سخت ترین مخالفین بھی کرتے ہیں اور پھر موجودہ تحریک آزادی میں جماعت اسلامی نے اپنا سب کچھ لٹادیا۔ان کے بچے آج بھی اپنی جانیں قربان کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ دشمن بھی جماعت اسلامی کے شاندار ماضی اور کردار سے بخوبی آگاہ ہے ،اسی لیے جماعت کو ٹوٹ پھوٹ اور انتشار و افتراق سے دوچار کرنا اس کی شدید خواہش ہے۔اس موقع پر تدبر و تفکر اور دور اندیشی جماعت کے کارکنان سے تقاضا کرتی ہے۔جناب سید ابوالاعلی مودودی نے جس جماعت کی داغ بیل اعلائے کلمتہ اللہ کے حصول کیلئے ڈالی ہو۔اس نظریئے کی آبیاری کیلئے مصر سے لیکر غزہ ،بنگلہ دیش سے بھارت اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں لاکھوں لوگ کال کوٹھریوں میں سڑائے جانے کے علاوہ پھانسی کے پھندوں پر لٹکائے گئے لیکن ان کی زبانوں سے اس کے سوا اور کچھ ادا نہیں ہوسکا کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف واپس لوٹ کر جانا ہے۔جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے وابستگان اطمینان رکھیں، کامیابی ان کا مقدر ہے اور جس نے اس جماعت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اس سے ذلت و رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔