
تحریر۔۔۔محمد شہباز
22اپریل کی دوپہر مقبوضہ جموں وکشمیر کے مشہور سیاحتی مقام بائی سرن پہلگام میں 26بھارتی سیاح اپنے ہی حکمرانوں کے ہاتھوں قتل و غارت کی بھینٹ چڑھ گئے۔عادل شاہ نامی کشمیری گھوڑے بان بھی اس واقع میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ یہ بعنیہ 14فروری 2019 میں لیتہ پورہ پلوامہ میں 40 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت طرز کا واقعہ ہے،جب بھارتی فوجیوں کی حفاظت کیلئے شاہراہ سے تمام بھارتی فوجی چیک پوسٹیں ہٹادی گئیں،بائی سرن پہلگام میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔
بقول ایک کشمیری صحافی کے مجھے پہلگام پہنچتے پہنچتے دس مقامات پر تلاشی کے سخت ترین مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور میں اپنے ساتھ مکھی بھی نہیں لے جاسکتا ہوں،تو 22 اپریل بھارتی سیاحوں پر حملے والے دن بھارتی چیک پوسٹیں کیونکر ہٹائی گئیں،جبکہ خود بائی سرن کے مقام پر کوئی ایک بھی بھارتی فوجی تعینات نہیں تھا،حالانکہ بائی سرن سے محض سات کلو میٹر کی دوری پر نہ صرف پولیس سٹیشن بلکہ بھارتی سی آر پی ایف کیمپ بھی قائم ہے۔بھارتی سیاحوں پر حملہ دن کے ایک بج کر بیس منٹ پر شروع ہوا،جو ایک بج کر پچاس منٹ تک جاری رہا۔ٹھیک دوپہر دو بجے اس واقعے کیFIR پولیس سٹیشن میں درج کی گئی۔حالانکہ اس طرح کے بڑے واقعات کی مکمل تحقیقات کے بعد ہی FIR درج کی جاتی ہے۔مگرحالات و واقعات میں کسقدر مماثلت پائی جاتی ہے کہ بغیر کسی تحقیق اور چھان بین کے قانونی تقاضے بھی پورے کیے گئے۔
ابھی بائی سرن واقعے کی خبر ہوا کے دوش پر گردش ہی کرنے لگی،تو بھارتی میڈیا جو پوری دنیا میں بدنام زمانہ گودی میڈیا کے نام سے جانا جاتا ہے،اس واقع کا الزام ہمیشہ کی طرح پاکستان پر عائد کیا ہے ۔بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کا طیارہ پہلگام کی اڑان بھرنے کیلئے پہلے سے تیار تھا۔جبکہ مودی جو سعودی فرمانروائوں کیساتھ ملاقات کی غرض سے سعودی عرب میں تھا،فوری طور پر بھارت کی راہ لی۔ دوسرے دن 23 اپریل کو بھارتی کابینہ کی سیکیورٹی میٹنگ میں پاکستان کے خلاف پانچ اقدامات کا اعلان کیاگیا۔سب سے پہلے پاک بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا گیا۔ پاکستانیوں کے ویزے منسوخ اور بھارت میں موجود تمام پاکستانیوں کو یکم مئی سے پہلے پہلے بھارت سے چلے جانے کیلئے کہا گیا۔واہگہ اٹاری سرحد بند اور پاکستانی سفارتخانہ میں فضائیہ،بحریہ اور بری افواج کے اتاشی ناپسندیدہ قرار دینے کے علاوہ سفارتی عملہ 30 افراد تک محدود کرنے کے اعلانات کیے گئے۔پاکستان نے 24 اپریل کو اپنی کابینہ سیکیورٹی کمیٹی میں سب سے پہلے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کو اعلان جنگ قرار دیا ۔جبکہ باقی تمام اقدامات میں واہگہ اٹاری سرحد بند،بھارت کیساتھ براہ راست یا کسی تیسرے ملک کے ذریعے تجارت معطل،بھارتی سفارتی عملہ 30 افراد تک محدود اور فوجی اتاشی ناپسندیدہ قرار،بھارتیوں کے ویزے منسوخ ،صرف سکھ یاتریوں کو پاکستان میں قیام اور باہر سے پاکستان آنے کی اجازت اور بھارتی آئیر لائنز کیلئے اپنی فضائی حدود بند اور شملہ معاہدہ منسوخ کیا جاسکتا ہے۔کااعلان کیا گیا۔
پاکستانی اقدامات کو بھارت کے مقابلے میں نہایت ہی سنجیدہ اور سیاسی بالغ نظری سے پر قرار دیا گیا۔خاصکر سکھ زائرین کے حوالے سے اقدامات کو بھارت کو چاروں شانے چت کرنے کے اقدام سے تعبیر کیا گیا۔ گوکہ پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں دونوں اطراف سے کیے جانے والے اقدامات کوئی پہلی مرتبہ نہیں کیے گئے،اسے قبل بھی کئی بار ایسے اقدامات کیے جاچکے ہیں،البتہ بھارت نے پہلی بار سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا ہے،جودونوں ممالک کے درمیان 1960کی دہائی میں عالمی بینک کی ثالثی میں معرض وجود میں آیا،جس کے تحت تین مشرقی دریا وں بیاس، راوی اور ستلج کا زیادہ پانی بھارت کو ملے گا یعنی ان دریاوں پر کنٹرول زیادہ بھارت کا ہو گا۔اسی فارمولہ کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر سے بہنے والے تین دریا چناب،جہلم اور سندھ پاکستان کے حصے میں آئے۔بھارت کافی عرصے سے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی کوشش کررہا ہے البتہ پاکستان یہ کیس عالمی بینک میں لے جاچکا ہے،جہاں فیصلہ پاکستان کے حق میں آنے کی شنید ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارت عالمی سطح پر سبکی سے بچنے کیلئے پہلے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کرچکا ہے،یعنی بائی سرن پہلگام بہانہ اور سندھ طاس معاہدہ نشانہ تھا۔گوکہ بائی سرن پہلگام واقع کے خلاف کشمیری عوام نے یک زبان ہوکر ہلاک بھارتی سیاحوں کے لواحقین کیساتھ جذبہ خیر سگالی کاجو اظہار کیا ہے ،اس نے بھارتی حکمرانوں کی امیدوں پر اوس گرادی ہے۔
اہل کشمیر نے پورے مقبوضہ جموں وکشمیر میں اپنا کاروبار بند رکھ کر بھارتی سیاحوں کیلئے نہ صرف اپنے گھر کھول دیئے بلکہ ٹرانسپوٹرز اور رکشا یونین نے فری سروس چلائی،اس کے علاوہ جگہ جگہ کشمیری نوجوانوں نے بھارتی سیاحوں کیلئے کھانے پینے کا اہتمام اور انتظام کرکے اسلام اور کشمیری عوام کی مہمان نوازی کا وہ حقیقی چہرہ پھر ایکبار پوری دنیا میں روشناس کرایا ہے ،جس کی کوئی نظیر نہ تو کوئی دوسرا مذہب اور نہ ہی کوئی قوم پیش کرسکتی ہے۔البتہ بھارتی میڈیا نے بائی سرن پہلگام کے نام پر ہندو اور مسلمان کا جو زہر بھارتیوں کے ذہن میں گھولا ہے،اس نے ابھی تک ایک MBBS کشمیری طالبعلم فلک سید خان جو کہ میڈیکل کالج جموں میں سیکنڈ آئیر میں زیر تعلیم تھا،کو قتل کیا گیا،جبکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی یونیورسٹی کیMAکی کشمیری طالبہ کیساتھ دست درازی اور چھیڑ چھاڑ کی گئی،
اس کے علاوہ بھارت کی دیگر ریاستوں میں زیر تعلیم ہزاروں کشمیری طلبا وطالبات پر نہ صرف تشدد کیا گیا بلکہ انہیں ان تعلیمی اداروں سے مار بھاگیا گیا۔گوکہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے دل لالچوک اور دوسرے مقامات پر ہزاروں کشمیری نوجوانوں نے اہل کشمیر کی شبیہ بدنام کرنے کی کوششوں پر بھارتی میڈیا کے خلاف شدید احتجاج اور مظاہرے کیے ،مگر بھارتی میڈیا جس روش پر چل پڑا ہے ،آثار و قرآئن یہ بتارہے ہیں کہ ہندو مسلم کے نام پر بھارت سے لیکر مقبوضہ جموں و کشمیر کی وادیوں ،جنگلوں اور بیابانوں میں انسانی خون بہانے کی تیاریاں کی جاچکی ہیں۔کیونکہ بھارت کے ہندو انتہا پسند کھلے عام مسلمانوں کا صفایا کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور قانون کے ہاتھ ان کی گردنوں سے کوسوں دور ہیں۔بھارت کے سابق فوجی آفیسران ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر جس پاگل پن کا مظاہرہ کررہے ہیں،اس پر بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مرکنڈے کاٹجو نے ایک انٹرویو میں جو تبصرہ کیا ہے،وہ واقعی ایک جج کے شایان شان ہیں،جسٹس کاٹجو کہتے ہیں کہ بھارتی جرنیل پاکستان کیساتھ جنگ کیلئے بھارتی ٹی وی چینلز پر بکواس کر رہے ہیں، انہیں یہ بات سمجھنا ہو گی کہ دونوں ملک ایٹمی طاقتیں ہیں۔جسٹس مرکنڈے کاٹجو کا کہنا ہے کہ باتیں کرنا بہت آسان ہے مگر جنگ بہت مہنگی ہوتی ہے۔ان کا ہنستے ہوئے کہنا ہے کہ بھارتی جرنیل اتنی شیخیاں مار رہے ہیں، آپ کی اتنی حیثیت نہیں ہے، بھارت جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
مرکنڈے کاٹجو نے مذکورہ انٹریو میں2019میں پلوامہ واقعے کے بعد پاکستان کے اقدامات کی بھی تعریف کی جب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پرتھی،اور برصغیر ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑا تھا۔مذکورہ انٹرویو کے دوران جسٹس کاٹجو نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے اپنے ایک دوست سے بڑی تفصیل سے بات کی ہے، وہ دوست بہت سینئر اور خارجی امور کو بہتر طریقے سے جانتا ہے، اس دوست کا کہنا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل کر ہی نہیں سکتا، اگر بھارت نے ایسا کیا تو دہلی اور بھارتی پنجاب سیلاب سے ڈوب جائے گا۔
واقف کار حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مودی حکومت کی جانب سے مسلمانون سے متعلق وقف ترمیمی بل پر بھارتی سپریم کورٹ میں پہلی دو سماعتوں پر مودی حکومت کی نہ صرف سرزنش کی گئی،بلکہ مودی حکومت کو وقف ترمیمی بل پر علمدرآمد سے روک دیا گیا ہے۔یعنی بظاہر وقف ترمیمی بل کو بھارتی سپریم کورٹ سے مسترد کیے جانے کا خدشہ ہے۔دوسرا بھارتی مسلمانوں نے اس وقف ترمیمی بل کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے سے انکار کیا ہے۔پورے بھارت میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ جوالائی تک ترمیمی بل کے خلاف کلینڈر بھی جاری کرچکا ہے۔جس نے مودی اور اس کے حواریوں کو بیک فٹ پر لاکھڑا کیا ہے۔لہذا مودی اور اس کے حواریوں نے اپنے ہی شہریوں کا قتل عام کرنا زیادہ موزوں اور مناسب سمجھا ،البتہ اس قتل عام کیلئے مقبوضہ جموں وکشمیر کی سرزمین کا انتخاب کیا گیا،تاکہ ایک تیر سے دو شکار کیے جاسکیں۔ایک تو اہل کشمیر کی پرامن جدوجہد کو فرقہ وارانہ رنگ دیکر اسے عالمی سطح پر بدنام اور دوسرا پاکستان پر بھی الزام لگانا آسان تھا۔
سو مودی نے ایسا ہی کیا،لیکن بھلا ہو ہلاک بھارتی سیاحوں کے لواحقین کا ،جنہوں نے افسوس کیلئے آنے والے بی جے پی رہنمائوں کو کھری کھری سنائی اور یہ سوال اٹھاکر مودی اور پوری بی جے پی کو کٹہرے میں کھڑا کیا کہ وہ تو اپنی حفاظت کیلئے ہی بھارتی حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں،اگر ٹیکس دینے کے باوجود بھی وہ محفوظ نہیں ہیں ،تو پھر بی جے پی سے سوال پوچھناان کا حق ہے،یہی وہ سخت سوالات ہیں،جنہوں نے بی جے پی کو پہلی مرتبہ یہ اعتراف کرنے پر مجبور کیا ہے کہ سیکیورٹی چوک ہوئی ہے،جبکہ بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی سیاحوں کی ہلاکتوں کیلئے مودی اور اسکی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔اس کے علاوہ جو اہم پیشرفت ہوئی ہے،سیاسی سطح پر بھارت خود کو بند گلی میں محسوس کررہا ہے،بھارت میں تعینات غیر ملکی سفارتکاروں کو بھارتی وزارت خارجہ میں بریفنگ کے دوران بھارتی حکام سے بائی سرن پہلگام سے متعلق شواہد مانگے گئے،جوبھارتی وزارت خارجہ کے آفیسران پیش کرنے میں ناکام رہے۔ظاہر ہے جو ملک اپنے شہریوں حتی کہ اپنے فوجیوں کو ہلاک کرنے کا ٹریک ریکارڈ رکھتا ہو،وہ ملک خاک شواہد پیش کرسکتا ہے۔ذلت اور رسوائی اس ملک کے مقدر میں لکھی جاچکی ہے۔آج عام بھارتی یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ آخر بی جے پی کے دوراقتدار میں ہی بھارتی شہریوں کو ہلاک کرنے کے واقعات بار بار کیوں پیش آتے ہیں۔جن کا جواب مودی اور اس کے حواریوں کے پاس نہیں ہیں۔بھارت میں ایک صحت مند روایت پروان چڑھنے لگی ہے۔اب مودی جیسے فسطائی سے ان کے کرتوتوں کا حساب مانگا جانے لگا ہے۔جس دن یہ آوازیں توانا ہوں گی،اس دن نہ بھارتی مریں گے اور نہ ہی یہ خطہ بار بار ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچے گا۔
بائی سرن پہلگام کی آڑ میں انسانیت کے دشمن اور فسطائی سوچ کے حامل نریندرا مودی اور اس کی دہشت گرد افواج مقبوضہ جموں و کشمیر میں جس بربریت اور ننگی جارحیت کا ارتکاب کررہے ہیں،اس نے پوری انسانیت کو شرما دیا ہے۔22اپریل کو بائی سرن پہلگام میں اپنے ہی سیاحوں کو قتل کرنے کے بعد بھارتی فوجیوں نے پورے مقبوضہ جموں وکشمیر میں جس سفاکیت کا ننگا ناچ شروع کیا ہے،اس کی مثال غزہ میں صہیونی اسرائیل کے ہاتھوں بربریت سے ہی دی جاسکتی ہے۔بھارتی سیاحوں کو ہلاک کرنے کے بعد وردی پوش بھارتی دہشت گردوں نے اوڑی،بانڈی پورہ اور کنڈی کپواڑہ میں چار معصوم کشمیریوں کو نہ صرف فرضی جھڑپوں میں شہید بلکہ بجبہاڑہ،کولگام ،پلوامہ، ترال اور کپواڑہ میں درجنوں رہائشی مکانات کو خوفناک بارودی دھماکوں میں تباہ کرکے سینکڑوں کشمیریوں کو کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور کیا ہے اور پھر ان دھماکوں کے ذریعے مکانات کی تباہی کی خبروں کو بھارتی ٹی وی چینلز پر بڑے ہی غرور اور تکبر کیساتھ نشر کیا گیا ہے۔گو کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں وقتا فوقتا ماورائے عدالت قتل اور جعلی مقابلے سامنے آتے رہتے ہیں۔البتہ بازی پور ہ اجس بانڈی پورہ اور کنڈی خاص کپواڑہ میں الطاف لالی اور غلام رسول ماگرے کا بہیمانہ حراستی قتل بھارت کے ماتھے پر ایسا سیاہ دھبہ ہے،جس سے تاصبح قیامت دھویا نہیں جاسکتا۔الطاف لالی کو اپنی بہن سمیت گرفتار کرکے اجس بانڈی پورہ پولیس سٹیشن لے جایا گیا،جہاں دو روز تک دونوں بہن بھائی پر بدترین تشدد کیا گیا ،اور پھر الطاف کو کلنار کے مقام پر لے جاکر اسے فرضی جھڑپ میں شہید کیا گیا،بعدازاں یہ بھونڈا دعوی کیا گیا کہ وہ مجاہد تھا اور بھارتی فوجیوں کیساتھ دو طرفہ تصادم میں مارا گیا،جس سے اس کے لواحقین نے یکسر مسترد کرکے عدالتی تحقیقات کے ذریعے انصاف کے تقاضے پورے ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔شہید الطاف لالی کی بھابی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بھارتی سفاکیت کا بھانڈا سرعام پھوڑ دیا ہے۔
ابھی بانڈی پورہ میں الطاف لالی کا خون خشک بھی نہیں ہوا تھا کہ کنڈی خاص کپواڑہ میں بھارتی سفاکوں نے غلام رسول ماگرے کو گھر سے اپنے صحن میں لے جاکر گولیاں مار کر شہید کیا،وہ اپنی بزرگ والدہ کا اکلوتا سہارا تھے۔لیکن بھارتی سفاکوں نے بینائی سے محروم حاجرہ بیگم کا یہ سہارا بھی چھینے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔جبکہ پوری مقبوضہ وادی کشمیر سے 2800 سو سے زائد کشمیری نوجوان گرفتار کیے گئے۔ مودی حکومت منظم طریقے سے کشمیری نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کے ذریعے نشانہ بنانے کے مشن پر گامزن ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعینات بھارتی فوجی ظالمانہ قوانین کی آڑ میں ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہیں۔بھارتی فوجیوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں گزشتہ 36 برسوں میں ہزاروں کشمیریوں کو ماورائے عدالت قتل کیا ہے۔بھارت اور اسکے حواری یاد رکھیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ماورائے عدالت قتل کا سہارا لیکر کشمیری عوام کے عزم و استقامت کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔عالمی برادری کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں معصوم کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل کا نوٹس لینا چاہیے۔ مودی حکومت کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی مجموعی اور منظم خلاف ورزیوں پر جوابدہ بنایا جانا چاہیے۔تاکہ اہل کمشیر کو بھارت کی ریاستی دہشت گردی سے بچایا جاسکے۔