
تحریر۔۔۔ مقصود منتظر

جنگ انسانیت کیلئےایک المیہ ہوتی ہے۔ اس میں نہ صرف زندگیوں کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ نفسیاتی، معاشی اور سماجی اثرات بھی دیرپا ہوتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت جنگوں کا مزہ کئی بار چکھ چکے ہیں ۔ دونوں ممالک کے درمیان پانچ دن جاری رہنے والی پانچویں جنگ بھی پاک اسٹیڈی اور مطالعہ پاکستان کا حصہ بن چکی ہے ۔۔ لیکن اس جنگ کا فاتح کون ہے اورکون وجیتا قرار پایا ۔۔ اس حوالے سے دونوں ایٹمی ممالک الگ الگ دعوے کررہے ہیں۔ یعنی دہلی میں بھی مٹھائیاں تقسیم ہورہی ہیں اور اسلام آباد میں بھی جشن ہے۔ آخر جیت کس کے حصے میں آگئی؟ یہ اہم سوال ہے جس کا جواب جاننا ضروری ہے۔
قارئین ، 22 اپریل کو وادی کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں پیش آنے والے واقعہ کے بعد بھارت نے حملے کا الزام براہ راست پاکستان پر دھر دیا اور ساتھ ہی اس خونی دُرگھٹنا کا بدلہ لینے کا بھی اعلان کیا۔ اس اعلان کے بعد جہاں پاکستان الرٹ ہوگیا وہیں انڈیا نے فوجیں اور اسلحہ بارڈرز پر پہنچانا شروع کردیا ۔ اس دوران یہ انوکھی بات ہوئی کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے لوگ نہ صرف اپنی اپنی حکومتوں پر جنگ میں پہل کرنے زور دینے لگے بلکہ ہنسی مذاق میں یُدھ کو پب جی کھیل سمجھ کر سوشل میڈیا پرمیمز کی بھرمار کردی گئی۔ پھر سات مئی کی رات بھارت نے مظفر آباد ، بہاولپور ، مریدکے ، کوٹلی ، ہجیرہ میں اپنے چنے ہوئے اہداف کو نشانہ بنایا ۔ چونکہ بھارت نے اس سے دو دن پہلے اپنے اہداف کی فہرست یہ کہہ کرجاری کی کہ ان کا نشانہ پاکستان اور آزاد کشمیر میں دہشت گردوں کے کیمپ ہیں۔ سات تاریخ کی رات ایک بجے کے بعد گولے برسنا شروع ہوئے اور بھارت نے پاکستان میں گھس کراپنے اہداف کو نشانہ بنایا ۔۔ یہ الگ بات ہے کہ نشانہ بننے والے اہداف یا تو مین آبادی میں واقع مساجد تھیں یا مدرسے ۔ جن میں عام شہری اور بچے جانیں گنوا بیٹھے۔
گرچہ جنگ میں کوئی نہیں جیت جاتا کیوںکہ اس میں انسانیت ہار جاتی ہے تاہم دنیاوی اصولوں کے مطابق سات مئی کی رات کے حملے سے ہی ہار جیت کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے تھے ۔ یہ جنگ کا پہلا مرحلہ تھا جس میں بھارت نے پہل کی اور پاکستان کو غزہ سمجھ کر اپنے طے شدہ اہداف کو پاکستان میں گھس کر نشانہ بنایا۔ بظاہر منتخب اہداف کو نشانہ بنانا حملہ آور ملک کی کامیابی تصور کی جاتی ہے ۔
غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں کہ انڈیا نے اپنے چنے ہوئے ٹارگٹس کو اچھی طرح ہٹ کیا۔ لیکن اگر صرف عمارتوں کو ہٹ کرنا جیت ہے تو یقینی طور پر بھارت اس مرحلے کا وجیتا قرار پایا ۔ مگر یہاں یہ سوال اہم ہے کہ کیا انڈیا کا ہدف صرف بلال مسجد کی عمارت تھی جو کہ عین مظفرآباد کے مین روڈ پر واقع ہے یا بہاولپور کا مدرسہ اور مرید کی مسجد ، جہاں بچے دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں اورعام لوگ پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہیں ۔ مطلب یہ کہ انڈیا نے جو ٹارگٹ منتخب کیے تھے وہ سول آبادی میں قائم کنکریٹ کی عمارتیں تھیں۔ بھارت کا دعوی ہے کہ یہ دہشت گردوں کے ٹھکانے ہیں ۔ لیکن کیا اس طرح کا کیمپ کسی مرکزی شاہراہ یا عین سول آبادی میں بنایا جاسکتا ہے۔ اور کیا اظہر مسعود اتنا سادہ ہیں کہ انہوں نے بھارت کی دھمکی کے باوجود اپنے عزیز و اقارب کو دہشت گرد ٹھکانے پر رہنے دیا۔ یہ سوال بھارت کے دفاعی حکام کوسوچنا چاہیے تھا ۔ انڈیا اظہر مسعود اور حافظ سعید کو مارنا چاہتا تھا لیکن نشانہ بنے معصوم بچے۔۔ پاکستان کی حدود میں گھس جانا اور عمارتوں یا مساجد کو نشانہ بنانا بھارت کی مورل وکٹری تو ہے لیکن ان اہداف کو ٹارگٹ کرکے بھارت نے کیاوہ مقصد حاصل کیا جو وہ چاہتا تھا، جواب ہے نہیں۔ بقول سابق بھارتی میجر گورو آریا محض عمارتیں گرانا کوئی کارنامہ نہیں، پاکستان میں مہنیوں میں ہی یہ عمارتیں دوبارہ تعمیر ہوں گے۔یوں بھارت پہلا مرحلہ جیت کر بھی ہار گیا۔ اور پھرجب سندرو آپریشن کے دوران رافیل سمیت پانچ طیارے گرانے کا پاکستانی دعوی سامنے آگیا ، اس کے بعد تو یقنیا یہ بھارت کی بڑی شکست ہے۔
یہاں یہ بھی نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ بھارت کی جانب سے نشاندہی کے باوجود کیسے انڈین فوج نے پاکستان میں گھس کر ان اہداف کو نشانہ بنایا ۔ اس پر پاکستان میں بھی سوال اٹھے ہیں۔لیکن ان سوالوں کا جواب پانچ بھارتی طیارے گرانے کے دعووں میں ملتا ہے۔ یعنی جہاں بھارت نے جارحیت کی وہیں پاکستان نے مکمل دفاع کرنے کی کوشش کی ۔ بقول ڈی جی آئی ایس پی آر بھارت کے کئی جنگی طیارے بیک وقت فضا میں موجود تھے۔ اگر رافیل سمیت دیگر پانچ جہاز گر گئے تو اخلاقی طور پر یہ پاکستان کی کامیابی ہے۔
جنگ کا دوسرا مرحلہ ڈرونز اور ایل او سی پر گولہ باری پر مشتمل رہا ۔ اس میں دونوں جانب خوف و ہراس پھیلا ، جانی و مالی نقصان ہوا ، بالخصوص ایل او سی پر واقع کشمیر کے دونوں اطراف میں سول آبادی کو نقصان پہنچا۔ پاکستان نے سو کے قریب ڈرونز گرانے کا دعوی کیا اسی طرح بھارت کی جانب سے بھی ایسے ہی دعوے سامنے آتے رہے۔ بھارت کی ہی جانب سے شروع کیے جانے والے اس مرحلے کا مقصد پاکستان میں پینک پھیلانا تھا لیکن خوف و ڈر پھیلنے کے بجائے پاکستان میں نئے جذبے نے جنم لیا ۔ عام لوگ بھارتی ڈورنز کو تاک تاک کر نشانہ بناتے رہے ، جونہی ڈرون گرگیا تو بچے کباڑہ اٹھانے دوڑ پڑے۔ حتی کہ لاہور میں ڈرون گرتے ہی موٹر سائیکل پر سوار دو افرادلے اڑے ۔۔ کل ملا کر یہ مرحلہ برابر رہا۔
اس کے بعد ایک رات ایسی بھی گزری جب بھارتی میڈیا نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد اور لاہور کو فتح کرنے کی من گھڑت خبریں چلائیں ، کراچی پورٹ کو مکمل تباہ کرنے کا دعوے کرکے اپنے ہی عوام کو گمراہ کیا ۔ یہی نہیں بھارتی میڈیا نے وزیراعظم پاکستان کو گرفتار کرنے اور آرمی چیف کو ہٹانے کی بھی افواہیں پھیلائیں ۔۔۔ من گھڑت ویڈیوز چلائی گئیں۔ اس سمے بھارت میں خوف جشن رہا لیکن صبح ہوتے ہی بھارتی عوام کی خوشیاں ماتم اور دکھ میں بدل چکی تھیں کیونکہ ان کے سامنے سچ آشکار ہوچکا تھا۔ الٹا بھارت کا گودی میڈیا بری طرح سے بے نقاب ہوگیا۔ عام ہندوستانیوں کا اعتبار اٹھ گیا۔ خود بھارتیوں نے اپنے میڈیا کی ایسی کلاس لی کہ آئندہ شرم کے مارتے ان کے اینکر بڑی بڑی پھینکنے سے پہلے کئی بار سوچیں گے۔۔اس دن سوشل میڈیا پر بھی بھارت بری طرح پٹ گیا ۔میمز کا ایسا طوفان امڈ آیا کہ ہنسی روکنا مشکل ہوتی رہی خود بھارت کے سوشل میڈیا صارفین نے گودی میڈیا کو ننگا کیا ۔
جنگ کا تیسرا اور فیصلہ کن مرحلہ میزائلوں سے شروع ہوا جس میں بھارت نے برہموس میزائل سے پاکستان کے کئی شہروں میں فوجی تنصیبات اور ائیر بیسز کو نشانہ بنایا ۔ نور خان ائیر بیس تک میزائل پہنچے۔ یہ ریڈ لائن تھی جو بھارت نے کراس کی ۔ اس سے پہلے پاک فوج پر جوابی حملہ کرنے کیلئے عوامی دباو بہت زیادہ تھا لیکن آئیر بیسز پر برہموس میزائل گرنے کے جہاں عوامی دباو مزید بڑھ گیا ۔ اسلام آباد اور پنڈی میں شہری سڑکوں پر نکل آئے، جو ایک طرف پاک فوج کے ساتھ اظہار یکجہتی کررہے تھے جبکہ دوسری طرف بھارت پر جوابی وار کرنے کا بھی مطالبہ کررہے تھے ۔ رات تین بجے پاک فوج کے ترجمان نے اعلان جنگ کردیا اور صبح فجر نماز کے بعد آپریشن بنیان مرصوس ، نعرہ تکبیر اللہ اکبر سے شروع ہوگیا ۔
پاکستانی قوم اور پاک فوج کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔ بھارت پاکستان کو صومالیہ یا غزہ سمجھ کر پاک فوج کی غیرت کو للکار چکا تھا ایسے میں جوابی وار فرض ہوچکا تھا ۔ پاک فوج نے جوابی حملہ چھپ کر نہیں بلکہ کھل کر کیا ۔ ویڈیو پروفس کے ساتھ آپنے آپریشن کا آغاز کیا ۔
یہ فیصلہ کن مرحلہ تھا اور اس میں پاکستان نے نہ صرف پاکستانی طیاروں نے بھارت کی نیندیں حرام کیں بلکہ اپنے میزائل سسٹم کی بھی دھاک بٹھا دی۔ فتح ون میزائل نے سری نگر ،ادھم پور ، گجرات اور دہلی جیسے شہروں میں جو تباہی مچائی وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سامنے آئے ۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارت پر خوف طاری ہوا اور اپنے انکل سام امریکا کو سندیش بھیجا کہ آو ہمیں بچاو ۔۔
فیصلہ کن مرحلہ میں پاکستان کو واضح برتری حاصل ہوئی ۔ اس میں پاکستان نے نہ صرف لاک شدہ اہداف کو ہٹ کیا بلکہ مودی سرکاری کی خام خیالی کو بھی ختم کیا کہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں کمزور ہے ۔ بھارتی حکام نےخودآپریشن بنیان مرصوص میں اہداف کو نشانہ بنانے کااعتراف کیا ہے۔ یوں پاکستان نے وہ سٹیٹ منٹ دے دی ہے جس کی جنگ میں ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی ہم خود مختار ملک ہے اور کوئی حملہ کرے تو جنگ کا خاتمہ ہم کریں گے ۔ جیسا کہ پاک فوج کا ترجمان بار بار کہتا رہا کہ وقت اور جگہ کا تعین ہم کریں گے اور جنگ اگر بھارت نے شروع کی تو خاتمہ ہم کریں گے ۔۔ اسی چیز کی تو ضرورت تھی ، یوں اللہ نے پاک فوج کے کہے کی لاج رکھ دی اور آخری اور فیصلہ کن مرحلہ پاکستان کے نام رہا ۔
اس جنگ میں کشمیری عوام کو سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان پہنچا لیکن مودی کے اس بیانیے کی چتا بھی راکھ ہوگئی جس میں وہ کہتا تھا مسئلہ کشمیر ختم ہوگیا۔ 22 اپریل کو پہلگام میں جو چنگاری اٹھی وہ جنگ میں بدل گئی ساتھ ہی مسئلہ کشمیر کو بھی سرد خانے سے نکل گیا ۔ مسئلہ پھر عالمی سطح پر زیر بحث آرہا ہے حتی کہ خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر حل کرانے کیلئے ثالثی کی پیش کش کردی ہے۔
اس جنگ میں پاکستان کی برتری اور بھارت کی حوصلہ شکنی سے ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کیلئے بھی بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ خدا نہ خواستہ اس جنگ میں بھارت کی برتری ہوتی تو یقینا وہاں کے مسلمانوں کیلئے جینا مزید دو بھر ہوجاتا ، انہیں کٹ ملا ، دیش دروہی ، غدار اور پاکستان کہہ کر مزید تنگ کیا جاتا ۔ میڈیا کے محاذ پر بھی بھارت یہ جنگ بری طرح ہار گیا ۔ ان کے چیخنے چلانے اور گلا پھاڑ پھاڑ کر بولنے والے اینکرز کو جو ہزیمت برادشت کرنا پڑی وہ ناقابل برداشت اورناقابل فراموش ہے ۔
ایک اور اہم بات یہ رہی کہ خوف کے بجائے اس جنگ کو دونوں ملکوں کے لوگوں نے بہت انجوائے کیا ۔ بالخصوص پاکستانی عوام نے ، شہری اپنی نگرانی میں میزائل چلواتے رہے ، گرتے بھارتی ڈرونز کی جانچ کے بعد کباڑ سمجھ کر اٹھاتے رہے ۔ یعنی پانچ دنوں میں ایک بھی لمحہ ایسا نہ رہی جس میں لوگوں کے اوپر خوف یا ڈر طاری ہوا ہے ۔۔ یہ واحد پاک بھارت جنگ ہے جو خوشی خوشی لڑی گئی ۔۔ یہ جنگ میدان کے ساتھ سوشل میڈیا پربھی مکمل جاری رہی اور ہار جیت کا اعلان بھی پہلے سوشل میڈیا سے ہی ہوا۔۔