
تحریر: مجاہد ذاکر اللہ

ابتدائی غیر رسمی بات چیت میں وہ اپنی ثقافت کے مضبوط، مثبت اور دلنشین پھولوں کی لڑی ایسے پرو رہے تھے کہ ہر طرف کشمیری ثقافت کی خوشبو بکھر رہی تھی۔ مگر بد نصیبی! وہ جس ثقافت، تہذیب اور انفرادیت کی بات کر رہے تھے اب اپنے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے،اوراپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔اس قابل فخر تہذیب کی اساس ”کشمیری زبان“ کو ہندتوا کے حملوں کا سامنا ہے۔
یہ بینی بینی خوشبو زیادہ دیر فضا کو معطر نہ رکھ سکی حماقتوں کی آندھیوں کا ذکر ہوا ہی چاہتا تھا کہ اداسی کے کالے بادلوں نے ڈیرے ڈال دیے۔ یہ اس ملاقات کی مختصر سی کہانی ہے جو چند روز پہلے مقبوضہ جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی ایک تنظیم ”یکجا“ کی ایک ٹولی نے ان کے گھر پر ان سے کی۔
ڈاکٹر سید نذیر گیلانی مادر وطن” کشمیر“ کے معروف سکالر، منجھے ہوئے قانون دان ہیں۔وہ وادی گل پوش کاایک علمی سرمایہ ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ کشمیر پالیسی دراصل ”حماقتوں کی فصل“ ہے جو ہر پیر و جواں مرد و زن کو کاٹنی پڑ رہی ہے۔ ان کا نظریہ ہے کہ کشمیر میں عسکریت کے لیے سپیس تھی نہ سکوپ تھا لیکن اس آندھی اور طوفان نے وادی کے سبززاروں کا رخ کیا تو ڈاکٹر گورو جیسے لوگ بے موت مارے گئے وہ معاشرہ جہاں امن و آشتی کا دور دورہ تھا، انسانی خون ارزاں ہو گیا۔سب کچھ برباد ہو کر رہ گیا جس کو ہم کسی صورت کھونا نہیں چاہتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ عسکریت اور سیاسی محاذ پر ہم سے فاش غلطیاں ہوئی جس کی وجہ سے تحریک آزادی کو بے پناہ نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
کشمیریوں کی خواہشتات کے بغیر مسئلہ کشمیر کا دیر پا حل ممکن نہیں
حریت کی بائیکاٹ پالیسی کوئی صائب طریقہ کار نہ تھا جس کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں
۔ ان کا ماننا ہے کہ جو مقامی انتظامیہ ہمارے ہاتھ میں ہوتی تھی اب ہمارے لیے ڈراؤنا خواب بن کر رہ گئی ہے۔ ڈاکٹر سید نزیر گیلانی نے کہا کہ ہولو کاسٹ کے بعد بچ جانے والے یہودیوں نے اپنی کہانیاں دنیا کے سامنے دلدوز انداز میں پیش کیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ان کا اپنا وطن ہے۔ لیکن بدنصیبی ہے کہ ہمارا کیس بہت زیادہ مضبوط ہونے کے باوجود ہم اس کو دنیا کے سامنے کامیابی کے ساتھ پیش نہ کر سکے۔ یہ ہماری ناکامی ہے کہ ہم اپنے مضبوط کیس کی Articulation نہ کر سکے۔انہوں نے کہا کہ چین نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مثبت کردار ادا کیا ان کا بحیثیث مسٸلہ کشمیر کے تیسرے فریق کے، پاکستان کو فائدہ پہنچے گا۔
ڈاکٹر سید نزیر گیلانی پاکستان کی جانب سے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے پر مسرت کا اظہار کر تے ہوٸے کہاکہ بھارتی بیانیہ دنیا میں پٹ چکا ہے ایسے میں تحریک آزادی کے مختلف محاذوں، خاص کر سفارتی محاذ پر Pro-active رول ادا کرنے کی ضرورت ہے. انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ آپریشن” بنیان المرصوص“ کی کامیابی میں انسانی کاوشوں سے زیادہ تائید ایزدی کا عمل دخل تھا۔
ان سے جب استفسار کیا گیا کہ اس ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟ تو انہوں نے بلا تامل جواب دیا کہ ”کشمیری قیادت اور کشمیر پالیسی“ جب ان سے دوبارہ سوال کیا گیا کہ اس 40 سالہ دور میں کیا کشمیر قوم نے کہیں کامیابی کے جھنڈے بھی گاڑے؟ تو انہوں نے کہا کہ کشمیری مجاہدین کے ساتھ بھارتی سیز فائر ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ بھارت کے سابق وزیراعظم دیوی گوڑا کا یہ کہنا کہ”sky is the limit “ اپنی جگہ پر فتح کا ایک بڑا نشان تھا۔
حزب المجاہدین کے سابق آپریشنل چیف کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دلی سرکار سے مذاکرات کرنے والی حریت قیادت کے برعکس حزب کمانڈر عبدالمجید ڈار کی سوجھ بوجھ کو سلام پیش کرتا ہوں۔
کشمیر کو تقسیم کرنے والی کنٹرول لائن پر بڑا حادثہ
انہوں نے سیز فاٸر کے دوران بھارتی مذاکراتی ٹیم کو صاف الفاظ اور نکات میں سمجھایا کہ اگے بڑھنے کا یہ طریقہ کار اور راستہ ہے. اس کے برعکس حریت کے سیاسی پنڈت دلی جا کر چائے پی کر اور فوٹو کھنچوانے کے بعد یہ کہہ کر واپس آتے تھے کہ اگلی بار ہم مذاکراتی ڈرافٹ کے ساتھ ائیں گے۔
انہوں نے” یکجا“کے ساتھیوں کو کہا کہ حق خود ارادیت کی نمائندگی کرنے والے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ مسٸلہ کشمیر کے حوالے سے تاریخی حقائق اور علم سے اپنے آپ کو لیس کرے ، تاریخی حقائق سے آنکھیں چرانے اور دامن بچانے کی کوشش نہ کی جاٸے۔
ڈاکٹر نزیر گیلانی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر کمپرومائز کرنے کے بجائے اسے انے والی نسل پر چھوڑ دیا جائے ممکن ہے کہ وہ ہم سے زیادہ بہتر انداز میں negotiate کر سکے۔