
سوات میں یہ پورا خاندان سیلاب کی موجوں میں بہہ گیا۔ یہ لوگ کسی ویرانےمیں نہیں تھے بلکہ مینگورہ سوات میں بائی پاس روڈ پر ایک ریسٹورنٹ میں ناشتہ کر رہے تھے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے سانحے ہر سال رونما ہوتے ہیں اور ہم اسے اللہ کی مرضی اور بس اتنی ہی زندگی تھی کہہ کر بھول جاتے ہیں ۔پھر نیا سال آتا ہے پھر کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے اور ہم تعزیتی بیانات جاری کر کے خاموش ہو جاتے ہیں۔
1۔ ثابت ہوا کہ ریسٹورنٹ دریائے کے کنارے تجاوزات کرکے بنایا گیا تھا کیا حکومت اس کا تدارک نہیں کرسکتی؟
جی بالکل دو سال پہلے سوات میں سیلابی صورتحال پیدا ہوئی کئی ہوٹلز بہہ گئے اور قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔حکومت نے اس وقت کوئی وقتی طور پر کچھ ہوٹلز کو نوٹس جاری کیے اور پھر رشوت کا بازار گرم ہوا ساتھ ہی وہی کام دوبارہ شروع ہو گیا، ہوٹلز والوں نے دریا میں کرسیاں رکھیں اور موت سے پیسے کمانا شروع کر دیے۔نہ کوئی پوچھنے والا نہ نہ ہی جع لوگ جاتے ہیں وہاں گھومنے ان کو عقل آتی ہے کہ دریا کے بیچ بیٹھ کر کون سا شاہی ناشتہ ملتا ہے۔ساون کا موسم ہے پہاڑوں پر بارش ہوئی تغیانی اتنی اچانک آئی کہ وہاں بیٹھے لوگ قدرت کا ناشتہ بن گئے۔۔
سوات کے خوبصورتی پربدنما دھبے”عوامی نمائندے”
2۔ کیا ٹورزم، ڈیزاسٹر منیجمنٹ اور دیگر ڈیپارٹمنٹس کا فرض نہیں بنتا کہ سیاحوں کو ریسکیو کریں
سوال کو بجا ہے لیکن پوچھیں کس سے، یہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔جنہوں نے رشوت لیکر دریا میں کرسیاں لگانے کی اجازت دے دی انہیں کیا لگے کہ انسانی زندگی کتنی قیمتی ہے۔ان لوگوں کو اپنی عیاشیوں سے فرصت ملے تو ہی کسی کا سوچیں، دس کروڑ کے بسکٹ کھانے والے اگر ایک ایمرجنسی یونٹ ہی کھڑا کر لیں، اچھا ایکوپمنٹ ہی لے دیں ان کو، لیکن کیوں لیکر دیں وہ کون سے عوامی نمائندے ہیں۔ان کا کام صرف ایک تعزیتی بیان جاری کرنا ہے اور اللہ صبر جمیل دے، چلو کام ختم۔ساتھ ان کی سیاسی لڑائیاں ختم ہوں تو ہی کچھ کریں۔لیکن فرصت نہیں ہے جناب3
۔ کیا سوات میں کوئی بھی تنظیم ایسی نہیں تھی جو ان بیچاروں کو بچاتی؟
تنظیم کو چھوڑیں جناب سال پہلے بٹگرام میں لفٹ کی رسی ٹوٹ گئی تھی اس کو ریسکیو کرنے کے کیے دو دن آپریشن چلتا رہا اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں، کتنے ادارے بنائے گئے اور کتنے فعال ہیں ۔