

میری آنکھوں نے وہ منظر بھی دیکھا جو شاید مدتوں بھلایا نہیں جاسکتا ،جب 29دسمبر 2024 کی یخ بستہ رات دس بجے کے قریب فاتح شخص کو یہ بھنک پڑگئی کہ ان کے ووٹوں کی تعداد مد مقابل سے زیادہ ہے،تو وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے،جس پر انہیں وہاں موجود جناب بشارت عباسی نے اپنے سینے سے لگایا ،یہ منظر بڑا ہی جذباتی تھا ، جس نے وہاں موجود ہر شخص بشمول مضبوط اعصاب کے مالک جناب شہزاد راٹھور کو بھی متاثر کیا،اور ان کی آنکھیں بھی آبدیدہ ہوگئیں۔حالانکہ ایسے مواقع پر ہمیشہ شور وغوغا کیا جاتا ہے ،لیکن ایسی عجز و انکساری بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔انہیں کہا گیا کہ آپ انتخابات کا معرکہ سر کرچکے ہیں۔انہیں احساس ذمہ داری کا اندازہ ہے کہ ان کے کندھوں پر جو بوجھ ڈالا گیا ہے،وہ نبھانا پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں بھرا تاج ہے۔
جناب عرفان سدوزئی نے کم وقت میں خود کو منوایا اور وہ پہلے ہی اس بات کا اظہار کرچکے تھے کہ انہیں ان کے دوست مایوس نہیں کریں گے،ایسا ہی ہوا۔ میں نے انہیں بڑا نرم گو لیکن دبنگ پایا ہے۔انہیں فی البدیہہ بولنے میں بھی مہارت حاصل ہے۔وہ اپنے ویڈیو پیغامات میں جہاں فورم کے ممبران کو اپنا قیمتی ووٹ استعمال کرنے پر ابھارتے رہے وہیں اعزازی ممبران کو بھی الیکشن کا مشاہدہ کرنے کی دعوت دیکر ان کی عزت افزائی کی ‘جس سے سراہا گیا۔ ان پر چھوٹے بڑے میں تفریق کرنے کا الزام بھی لگایا گیا اور پھر بات معافی مانگنے کے مطالبے تک نہیں رکی،اس نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر گروپ میں معذرت پر مبنی مختصر نوٹ بھی شیئر کیا ،جس نے ان کے قد کاٹ میں مزید اضافہ کیا۔وہ جناب زاہد عباسی کو حاضریں میں سے بازو پکڑ کر اسٹیج پر لے گئے۔انہوں نے اپنی وکٹری سپیچ میں کسی کو نہ دھمکی دی اور نہ ہی طعن و تشنیع سے کام لیا ۔وہ دوسروں سے کم عمر ضرور ہیں،لیکن ان میں ذہنی بالیدگی ہے۔انہیں اگرچہ بہت سے چلینجز درپیش ہیں،البتہ انہیں اچھی ٹیم میسر آچکی ہے۔
جہاں برادر عرفان سدوزئی اور مقصود منتظر نے پہلی بار دو اہم نشتوں پر کامیابی اپنے نام درج کی ہے وہیں مجھے ذاتی طور پر برادر سردار عدیل بشیر کے منتخب نہ ہونے کا دکھ بھی ہے،جن کی صحافتی اہلیت کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ان کیساتھ ساتھ راجہ عثمان طاہر،جناب ہلال وانی اور بلال احمد کا بھی جو پروفیشنل ہونے کے علاوہ بڑے محنتی بھی ہیں۔
مشاہدے میں یہ بھی آیا ہے کہ حالیہ انتخابات گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں نسبتا اچھے ماحول میں منعقد ہوئے،تلخیوں اور تلخ رویوں میں بہت حد تک کمی کا مشاہدہ دیکھنے میں آیا۔جس کا عملی ثبوت برادر سردار عمران اعظم کو پڑھنے والے ریکارڈ ووٹ ہیں،جو بہتر رویوں کا عکاس ہیں۔اس سے ایک خاموش پیغام بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اگر رویوں میں بہتری لائی جائے تو مخالف خیمہ بھی آپ کو ووٹ دے سکتا ہے۔یونائیٹڈ پینل کیساتھ وابستہ دوست و احباب جنہیں میں اپنے دل کے قریب محسوس کرتا ہوں ‘ نے بھی ان انتخابات کو دلچسپ بنایا ہے۔ البتہ سیکرٹر ی کی نشت پر 16 ممبران نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال دونوں میں سے کسی کے حق میں نہیں کیا ،اس خاموش اقدام میں بہت کچھ سوچنے کا پیغام پنہاں ہے۔
جرنلسٹس پینل کی قیادت کرنے والے بزرگ جو ناممکن کو ممکن میں بدلنے میں ید طولی رکھتے ہیں’ بازی پلٹ دی ہے۔جبکہ سرزمین مقبوضہ جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی تنظیم یونائیٹڈ جرنلسٹس ایوسی ایشن” یکجا ” کی جناب ارشد حسین،جناب محی الدین ڈار،جناب نعیم الاسد اور جناب چوہدری محمد رفیق پر مشتمل چار رکنی کمیٹی نے کشمیر جرنلسٹس فورم کے مذکورہ انتخابات میں جس احسن انداز میں مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھائی ہے،اس سے نہ صرف ہر ایک نے سراہا،بلکہ ان کے ہر فیصلے کو من و عن قبول اور تسلیم بھی کیا۔مذکورہ کمیٹی نے جناب شہزاد راٹھور اور جناب بشیر عثمانی سے عہدوں کا کوئی مطالبہ نہیں کیا اور شہزاد راٹھور صاحب کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا،کہ وہ جو بھی فیصلہ کریں گے،اس سے رو گردانی نہیں کی جائے گی۔ جس کی وہ خود بھی گواہی دیں گے۔
الیکشن کمیشن کے اراکین جناب اعجاز عباسی اور جناب منیر زاہد بالعموم اور کمیشن سربراہ جناب سردار عاشق حسین نے بالخصوص پرامن ‘ منصفانہ اورغیر جانبدارانہ انتخابات منعقد کرانے میں جو غیر معمولی کردار ادا کیا ہے ،اس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔بلاشبہ ایسے افراد کسی بھی تنظیم،گروہ اور سماج کا اثاثہ ہوتے ہیں،جن کی قدرو قیمت ہر لحاظ سے مقدم ہے۔
جناب زاہد عباسی کی گفتگو سوائے اس ایک جملے کہ عرفان میرے ہی پینل کے نائب صدر تھے،کے سوا شاندار اور مدلل تھی۔ مذکورہ جملہ دوہرانے کی ضرورت نہیں تھی۔ان کی گفتگو کی داد انہیں جناب شہزاد راٹھور نے بھی دی ہے۔ جناب عقیل انجم بھی تقریب کے اختتام تک موجود تھے۔جو مثبت شوچ اور انداز فکر ہے۔جس سے پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔
اگر حالات و واقعات اسی طرح درست سمت کی جانب گامزن رہے تو اس فورم کا مستقبل تابناک ہے۔ جناب عمران اعظم مسلسل درست سمت کی جانب نشاندہی کررہے ہیں۔ان کا باڈی میں اضافہ دوسروں کیلئے مشعل راہ ہے ‘ جس سے اپنانے کی ضرورت ہے۔ انسان کا ماضی اس کے حال پر دلالت کرتا ہے ۔اس میں بڑوں کا اہم کردار ہے’ جو انہیں ہر حال میں نبھانا ہوگا۔ آج برادرم چوہدری مدثر کو اپنے وائس نوٹ میں یہ کہنا پڑا کہ الفاظ انسان کی تربیت اور نسلوں کی شناخت کا پتہ بتا دیتے ہیں۔
میرے کانوں میں کشمیر میڈیا سروس کے سابق سربراہ جناب مرحوم شیخ تجمل الاسلام کے وہ الفاظ آج بھی گونج رہے ہیں کہ آپ لوگ اس عمر میں اپنے گھروں سے نکلے جب والدین کی جانب سے تربیت ایک ناگزیر ضرورت ہوا کرتی ہے لہذا جب بڑوں کیساتھ گفتگو کرنے یا بیٹھنے کا موقع میسر آئے تو سیکھنے کی کوشش کیا کریں’ تاکہ آپ کی زندگیوں کی بود و باش میں جو کمی والدین کی رہ چکی ہے۔اس کا ازالہ بڑوں سے سیکھنے میں ہی کیا جاسکتا ہے۔ لہذا اس فورم کے بڑے واقعی میں اب بڑے بن جائیں اور جو لوگ منتخب ہوچکے ہیں’ نہ صرف ان کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں بلکہ ممدوح و مماون بن جائیں ۔اختلاف کرنا کوئی گناہ نہیں ہے لیکن اداب اور اخلاق کے دائروں میں رہ کر غلطیوں کی درست نشاندہی اور ممبران کی عزت نفس اور بلاتفریق فلاح و بہبود کیلئے سعی ہی آنے والے کل کو تاریخ کی پیشانی پر ثبت کرے گی ۔
گزشتہ انتخابات میں ہم سب کے ہر دلعزیز جناب رفیق صدیقی گوکہ صاحب استراحت تھے لیکن آج نہیں ہیں۔موجودہ انتخابات کے عین موقع پر بول نیوز کیساتھ وابستہ کیمرہ مین داغ مفارقت دیکر چلے گئے ہیں۔یہ فورم اگر ایک دوسرے کا دکھ ہی بانٹ لے تو بھی یہ بڑی کاوش ہوگی۔بس رویوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے ‘ حالات و واقعات خود بخود بہتری کی جانب گامزن ہوں گے۔