
تحریر : فضل اللہ
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قبضے کیخلاف برسر پیکار تنظیم حزبُ المجاہدین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُس کے فولادی عزم رکھنے والے شیر دل مجاہدین موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہر معرکے کو جاوداں اور بے مثال بنا دیتے ہیں۔ خطہ کشمیر کا کون سا گوشہ ہے جہاں اِن باشعور اور پیکر شجاعت مجاہدین نے حق کی تصدیق اپنے خونِ صافی سے نہ کی ہو۔ یہ سرفروش شہادت کی موت کو گلے لگا کر اپنے عمل سے اعلان کرتے ہیں

کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلہ مانیست
اِس عہد کی تجدید کیلئے حزبُ المجاہدین کے ڈویژنل کمانڈر جموں سیف اللّٰہ خالد نے اپنا سر بہت پہلے پیش کر دیاتھا۔ یہ 16 فروری 1994ء کا ذکر ہے۔ بھارتی فوج نے ڈوڈہ کے گاؤں گنگاٹھہ کا محاصرہ کیا اور سیف اللّٰہ خالد اپنے 25 جاں نثاروں کے ساتھ گھیرے میں آگئے مجاہدین نے فوج کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا۔ اپنے کمانڈر کو محاصرے سے نکالنے کیلئے وہ سب پروانہ وار نثار ہونے کو تیار تھے۔ لیکن خود سیف اللّٰہ خالد مجاہدین کو محاصرے سے نکل جانے کا حکم دے رہے تھے۔ اللّٰہ کے اُس مجاہد نے انوکھا فیصلہ کیا تھا۔ اپنے ساتھیوں کو بچانے کیلئے ہزاروں فوجیوں کے سامنے آہنی دیوار بن کر ڈٹ گئے۔ مجاہدین بوجھل دل کے ساتھ اور اعلیٰ ڈسپلن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمانڈر کا حکم بجا لائے۔۔ وہ سب محاصرے سے نکلتے چلے گئے۔ حزبُ المجاہدین سے وابستہ مجاہدین کا خاصہ ہے کہ رزم ہو یا بزم وہ بلا چون وچرا اپنے کمانڈر کا حکم بجا لاتے ہیں۔ خواہ اُس میں اُن کے جذبات و احساسات کا خون ہی کیوں نہ ہو یہی معاملہ یہاں بھی پیش آیا۔
حزبُ المجاہدین کے کمانڈروں کا طرہ امتیاز یہ بھی رہا ہے کہ وہ صفِ اوّل میں اپنے ساتھیوں کو رکھنے کے بجائے خود آگے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ساتھیوں کو آگے کھڑا کرکے اُن کی اوٹ میں جان بچا لینا اُن کا شیوہ نہیں۔ عبداللہ بانگرو ، اشرف ڈار ، مقبول علائی اور شمس الحق کی یہی سُنّت جاریہ ہے۔ اِس قبیل کے دوسرے سینکڑوں کمانڈروں نے ایسے مواقع پر ہمیشہ آگے بڑھ کر دشمن کا وار اپنے اپنے سینے پر سہا۔۔ ساتھیوں کو بچایا اور خود حیاتِ جاوداں پاگئے۔
کمانڈر سیف اللّٰہ خالد نے اپنے نامور پیش روؤں کی تقلید کرتے ہوئے کفر کے ٹڈی دل لشکر کا تن تنہا سات گھنٹے تک مقابلہ کیا۔ وہ فن سپہ گری سے خوب واقف تھے لہٰذا دشمن کو خوب نقصان پہنچایا۔ ایک ایک گولی سے ایک ایک شکار کرنا اُن کا مشغلہ تھا۔ وہ یوں برس رہے تھے جس سے گمان ہوتا تھا کہ بیسیوں مجاہدین فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں ، مگر اصل میں مقابلہ ایک اور ہزار کے درمیان تھا۔ دوسرے مجاہدین کمانڈر کےحکم کے مطابق اپنے ہتھیار اور تمام ضروری سامان محفوظ ٹھکانوں میں منتقل کرچکے تھے۔ سیف اللّٰہ خالد کے پاس آخری گولی بھی ختم ہوگئی۔ یہ بھی حزب کے ہر کمانڈر کا خاصہ ہے کہ وہ اپنے پاس آخری گولی تک دشمن سے لڑتا ہے۔ سیف اللّٰہ خالد کو یقین ہوگیا کہ شہادت اب ایک جست کے فاصلے پر رہ گئی ہے تو اُنہوں نے اپنی گن اپنے ہاتھوں سے توڑ دی تاکہ دشمن اُسے تحریکِ آزادی کے خلاف استعمال نہ کرسکے۔ اُس کے بعد فوجیوں نے دیکھا کہ سیف اللّٰہ اُن کے سامنے موجود ہے۔ ہزاروں نگاہیں اُس اکیلے شیر پر جم گئیں۔ گولیوں کی بوچھاڑ نے خالد کی آرزو پوری کردی جس کیلئے اُس نے چڑھتی جوانی کے آغاز میں سفر شروع کیا تھا۔ درجنوں فوجیوں کی لاشیں خون میں لت پت پڑی تھیں۔ دشمن کے سپاہی آگے بڑھے کہ دیکھیں مجاہدین کی کتنی تعداد شہید ہوئی ہے مگر ایک کے سوا کسی کا بال بھی بیکا نہ کرسکے تھے۔ کف افسوس ملتے ہوئے وہ حزبُ المجاہدین کو گالیاں بکنے لگے۔
کمانڈر سیف اللّٰہ خالد 16 فروری کو شہید ہوئے۔ ٹھیک دو ماہ پہلے 16 دسمبر کو کمانڈر شمس الحق اسی طرح کے ایک معرکے میں واصل بحق ہوئے تھے۔ لیکن شمع بزمِ حق کے پروانے بہت…… ایک گرتا ہے سینکڑوں اُس کی جگہ لینے کو لپکتے رہے۔ کسی کے نثار ہونے سے پروانوں کی دیوانگی پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ جان بچانے والے اور زندگی سے محبت کرنے والے اور ہی ہوتے ہوں گے۔ حزبُ المجاہدین کے مجاہد نہیں ہوتے۔ بلکہ اُن کے دل کی خلش اُس وقت دور ہوتی ہے جب باطل کے ساتھ بھر پور ٹکر لینے کا اُن کو موقع ملتا ہے۔ اسی تصادم میں وہ اپنی جان لٹا کر زندگی کی لذّت اور عظمت محسوس کرتے ہیں۔ کمانڈر سیف اللّٰہ خالد حزبُ المجاہدین کے تاسیسی ارکان اور کمانڈروں میں سے تھے، 1989ء کے اُس اوّلین اجتماع میں موجود تھے جس میں حزبُ المجاہدین کی بُنیاد رکھی گئی اور نام تجویز کیاگیا۔ اُس کے بعد اُنہوں نے اِس تنظیم کیلئے اپنی خداد صلاحیتیں وقف کر دیں۔ صوبہ جموں میں جہادی سرگرمیوں کا آغاز ہوتے ہی اُنہیں گرفتار کرلیا گیا۔ نو ماہ انٹروگیشن کی سختیاں برداشت کرنے کے بعد رہا ہوئے۔ دشمن اُن سے کچھ نہ اُگالوا سکا۔ اِسلئے کہ انٹروگیشن کے دوران اُنہوں نے ایک ”گونگے اور بہرے“ شخص کا بہروپ بنائے رکھا۔ رہا ہوئے تو کام اُسی جگہ سے شروع کیا جہاں سے چھوڑ کرگئے تھے۔۔ اُنہوں نے محسوس کیا کہ وادئ کشمیر میں تحریکِ آزادی زوروں پر ہے جبکہ صوبہ جموں میں اُس کی رفتار سست ہے۔ اُنہوں نے مجاہدین کو منظّم کرنے کیلئے بے حد محنت کی، یہ اُن کی قربانیوں کا صلہ ہے کہ آج صوبہ جموں میں بھی حزب وادئ کشمیر کی طرح ناقابلِ تسخیر قوّت بن چکی ہے۔ وہ ایک تجربہ کار منتظم ، معاملہ فہم کمانڈر اور تنظیم ساز رہنما تھے۔ مجاہدین کی قوت کو مجتمع کرکے اُنہوں نے ضلع ڈوڈہ کو مرکز جہاد بنایا۔ یہ وہ ضلع ہے جس میں حزبُ المجاہدین نے ابتداء سے قوّت حاصل کئے رکھی ہے۔ وہاں سیف اللّٰہ خالد نے یادگار ایکشن کئے۔ جولائی 1992ء میں مجاہدین نے ڈوڈہ کو فتح کیا، پولیس اسٹیشن، سینٹرل ریزرو پولیس فورس کی بارکوں اور دیگر اہم سرکاری تنصیبات پر پاکستانی پرچم لہرایا گیا۔ اسلحہ اور گولہ بارود کا بڑا ذخیرہ اپنے قبضے میں لیا۔ اُن کی جنگی حکمتِ عملی کو دیکھ کر فوجی انتظامیہ ڈوڈہ ضلع میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کی جگہ ریگولر آرمی تعینات کرنے پر مجبور ہوگئی۔
کمانڈر سیف اللّٰہ خالد کے ہمسایہ وقار خان (شہید) کہتے ہیں! بھالا ڈوڈہ میں اُنہوں نے صرف دو مجاہدین کے ہمراہ فوج کی گشتی پارٹی پر حملہ کیا اور 9 فوجی مار ڈالے اور 17 شدید زخمی کر دیے، ٹھاٹھری پولیس اسٹیشن پر ایک زور دار حملہ کرکے اُنہوں نے ریاستی پولیس کے چھکے چھڑائے۔ 8 ایس ایل آر رائفلیں، 4 تھری ناٹ تھری گنیں ایک وائر لیس سیٹ اور بہت سے گولہ بارود پر اُنہوں نے قبضہ کیا۔ اُن کا طریقہ یہ تھا کہ جہاں اور جس علاقے میں جاتے وہاں کے مجاہدین کے ساتھ مل کر ایکشن میں حصّہ لیتے اُس سے ہر جگہ کے مجاہد کو حوصلہ ملتا تھا۔
بھدرواہ میں اُنہوں نے بھارتی فوج کی ایک گشتی پارٹی کو نشانہ بنایا۔ اُس حملے میں 5 فوجی ہلاک ہوئے اُن کے سازو سامان اور اسلحے پر مجاہدین نے قبضہ کر لیا۔ اِس کے علاوہ ڈوڈہ میں اُنہوں نے اچانک حملہ کرکے تین فوجیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا۔ اپنی بے مثال شجاعت کے سبب وہ مجاہدین میں بے حد مقبول تھے اور تمام مجاہد اُن کی بے پناہ عزت و تکریم کرتے تھے۔ جب سے میدانِ جہاد میں اُترے تھے کفر کے خلاف اللّٰہ کی تلوار بن گئے تھے۔۔ عام لوگ بھی اُن کے کردار و عمل سے متاثر تھے اور ”پیر صاحب“ کے نام سے پکارتے تھے۔ کشمیر میں پیر کا لفظ بزرگوں اور انتہائی نیک لوگوں کیلئے بولا جاتا ہے۔ اُنہوں نے گھر گھر دین کی دعوت پیش کی اور درسِ جہاد دیا اُس کا نتیجہ ہے کہ آج جموں کا ہر گھر مضبوط مورچہ بن چکا ہے۔ جب تک زندہ رہے ضلع ڈوڈہ میں ہر ایکشن ”پیر صاحب“ کے حکم پر ہی ہوتا تھا اور یہ اُن کی خداداد صلاحیتوں کا ثمر ہے کہ وادئ کشمیر کے مقابلے میں جموں صوبہ میں زیادہ منظّم اور زیادہ موثر کارروائیاں ہوتی رہیں۔ مجاہدین کو یہاں بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر نقصان پہنچا۔ صوبہ جموں میں اُنہوں نے ڈوڈہ کے علاوہ اُدھم پور پونچھ ، راجوری اور دوسرے اضلاع تک جہاد کو پھیلا دیا۔ وہ ہر مقام اور ہر جگہ پرخود پہنچتے تھے۔ حیاتِ مستعار مہلت دیتی تو سیف اللّٰہ خالد تاریخِ اسلام کے عظیم جرنیلوں میں شمار ہوتے۔
اگست 1992ء میں اُن کی جرآت و شجاعت کا یہ واقعہ بھی لوگوں نے دیکھا کہ سیف اللّٰہ خالد کے ایک مجاہد ساتھی دشمن کے گھیرے میں آگئے۔ مجاہد نے سیف اللّٰہ کو پیغام بھیجا۔۔۔ چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ سیف اللّٰہ کی ہلکی مشین گن دشمن پر تابڑ توڑ فائر کررہی تھی۔ پھر سیف اللّٰہ خالد کے نام کی گونج چاروں سمت پھیل گئی۔ دشمن سراسیمہ ہو کر بھاگ نکلا اُس موقع پر 12 فوجی اُن کا نشانہ بنے۔
کمانڈر سیف اللّٰہ خالد نے شیواہ ڈوڈہ میں محمد سلطان نائیک کے ہاں ایک دین دار اور متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ شیواہ ڈوڈہ شہر سے تقریباََ 16 کلومیٹر دُور 229 گھروں پر مشتمل بستی ہے جس میں کچھ گھر ہندوؤں کے بھی ہیں۔ کل آبادی 1609 نفوس پر مشتمل ہے۔ ماں باپ کے اکلوتے چشم و چراغ تھے۔ والدین نے اُن کا نام عبدالرشید رکھا۔ غربت کے باوجود اُن کو علم کے نور سے مالا مال کیا۔ جو لوگ اُن کے ابتدائی دور کے شناسا ہیں کہتے ہیں کہ وہ شروع ہی سے انقلابی ذہن رکھتے تھے۔ خوابیدہ ملّت کو جگانے کیلئے اکثر سوچوں میں گم رہتے تھے۔ اپنی قوم کو غلام دیکھ کر خون کے آنسو روتے تھے۔ آزادی کی آرزو اُن کو پارے کی طرح بے قرار رکھتی تھی مگر یہ کام وہ اکیلے تو نہیں کرسکتے تھے۔ اُس سوچ نے اُنہیں 1966ء میں جماعت اسلامی کے قافلے میں شامل کیا۔ اسلام کی روح پہلے سے ہی اُن کے جسم کے روئیں روئیں میں موجود تھی۔ تحریک نے اُن کو شعور دیا۔ اپنی محنت اور اخلاص کی وجہ سے بہت کم وقت میں جماعت اسلامی کے رکن بن گئے ، یہ وہ زمانہ تھا جب مردِ درویش مولانا غلام احمد احرارؔ نے ڈوڈہ کے بلند و بالا پہاڑوں کو پیدل عبور کیا اور اُن کی چوٹیوں پر بھی اسلام اور حریت کی تعلیم پہنچائی۔ جماعت اسلامی میں شامل ہو کر عبدالرشید دن رات دعوتِ دین دینے لگے۔ وہ جس سے ملتے اُسے آزادی کا درس ضرور دیتے۔ جماعت اسلامی نے اُس وقت تن تنہا آزادئ کشمیر کا نعرہ لگایا۔۔ ” اٹھ خدا کا نام لے شمشیر لے قرآن لے“ باندھ لے سر پے کفن ، کر خون سے اپنے وضو“
عبدالرشید نے بھی یہ دعوت سنی اور لبیک کہہ کر میدانِ جہاد میں کود پڑے۔ فکر و عمل گھر گھر پہنچانے کیلئے عبدالرشید نے کیا کیا جتن نہیں کئے۔ اِس اعلیٰ مقصد کے حصول کیلئے اُنہوں نے کئی روپ اختیار کئے۔ کبھی اُستاد بنے اور کبھی رہبر اور کہیں شاگرد اور آخر کار مجاہدین اسلام کے کمانڈر۔ اس شوقِ جنوں کو دیکھ کر مولانا احرار نے اُنہیں ”اصلاحی“ کا لقب دیا۔ چنانچہ وہ عبدالرشید اصلاحی کے نام سے مشہور ہوئے۔ صوبہ جموں میں جماعت اسلامی کی طرف سے وہ انتخابات میں امیدوار بھی بنائے گئے۔ سات آٹھ سال کا عرصہ جیل میں گزارا۔ سیّد علی گیلانی، مولانا غلام احمد احرارؔ، قاری سیف الدین اور حکیم غلام نبی جیسے زعمائے جماعت کے دستِ راست کہلائے۔
آج صوبہ جموں میں جماعت اسلامی تمام اضلاع میں فعال اور متحرک رول ادا کر رہی ہے اُس کے حامیوں کی تعداد بلامبالغہ لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ جموں میں جماعت اسلامی اور اُس کے تربیت یافتہ قائدین اور کارکن ہیں جو تحریکِ جہاد میں سرگرم رول ادا کررہے ہیں۔ باقی سیاسی تنظیموں کا وجود صوبہ جموں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ جماعت کے کام کا تمام تر سہرا عبدالرشید اصلاحی کے سر ہے کیونکہ اُس کی دعوت لے کر اُنہوں نے ہر گھر پر دستک دی۔ شہروں اور گاؤں کے چکر کاٹے۔ اپنی جوانی کو اُس کیلئے لٹایا اور اپنی جان عزیز بھی اِس میں کھپا دی۔ یہی عبدالرشید اصلاحی تھے جو کشمیر کے جہادِ آزادی کے ہر اوّل دستے میں سیف اللّٰہ خالد کے روپ میں شامل ہوئے اور جب اپنی جان تک راہِ خدا میں قربان کردی تو اللّٰہ نے اپنے بندوں کے دل اُن کی محبت سے یوں لبریز کر دیے کہ جب اُن کا جنازہ آبائی علاقہ شیواہ لایا جا رہا تھا تو پورے راستے میں لوگوں کی قطاریں کھڑی تھیں۔ اپنے محبوب کمانڈر کو دیکھ کر وہ ” اسلام زندہ باد اور جماعت اسلامی زندہ باد“ کے فلک شگاف نعروں سے خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔ اُن کی شہادت کی خبر پھیلی تو کاروبار زندگی رُک گیا، ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ کوئی یہ خبر سننے کیلئے تیار نہ تھا۔ کسی کو یقین نہ آرہا تھا۔ لوگ جلوسوں کی صورت میں شیواہ پہنچنے لگے اور اپنے محبوب کمانڈر کا دیدار کرتے گئے۔ قریباً تیس ہزار لوگوں نے اُن کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ ڈوڈہ جیسے چھوٹے پہاڑی قصبے میں یہ جم غفیر اِکٹھا ہونا یقیناً شہید کی عظمت کی دلیل ہے۔ جنازے کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی صوبہ جموں جناب سعد اللّٰہ تانترے نے اُنہیں شہیدِ جموں کا خطاب دیا پھر جب اُس وفا شعار اور وفا کیش کو لحد میں اُتارا جا رہا تھا تو فضا ” شہیدِ جموں امر رہے گا “ کے نعروں سے گونج رہی تھی۔
شہید بار ہا دُعا مانگ چکے تھے کہ خدایا مجھے اپنی راہ میں جان قربان کرنے کا شرف عطا کر اللّٰہ تعالیٰ نے آخر کار اُن کی یہ دُعا قبول فرمائی۔۔۔ شہادت نصیب ہوئی تو بھی کیسی۔۔۔ پچیس گولیاں سینے پر کھائیں اور دمِ آخر لبوں پر حسیں مسرت کھیل رہی تھی جیسے اپنی قوم کے مستقبل کی کامیابی کی نوید دے رہے ہوں۔
اپنے رنگین لہو سے وضو کر لیا
کس تہور سے جام شہادت پیا