
آپ نے شاید راولپنڈی اسٹیڈیم کے باہر نصب اس مجسمے کو دیکھا ہوگا لیکن اس کی دلچسپ کہانی نہیں سنی ہوگی ۔۔ نوجوان صحافی اسامہ خواجہ نے اس حوالے سے مختصر مگر انتہائی دلچسپ تحریک شیئر کی ہے ۔۔۔ جس میں نہ صرف مجسمے پر سوال اٹھتا ہے بلکہ اس کی اصل روح بھی آشکار ہورہی ہے ۔۔۔
اسامہ خواجہ کی تحریر ۔۔۔
کچھ مہینے پہلے جب پنڈی اسٹیڈیم کے قریب مری روڈ کے کنارے پر یہ مجسمہ لگایا گیا تو مجھے لگا کہ بنانے والے سے کچھ غلطی ہوئی ہے۔ پنڈی تو شعیب اختر کا شہر ہے، جس نے اپنے وقت کے تمام ہی بلے بازوں کو تگنی کا ناچ نچایا۔ یہاں تو بلے باز کی جگہ شعیب اختر اپنے فلیٹ پیروں کے ساتھ بھاگتا دکھائی دینا چاہیے تھا۔ اوپر سے بلے باز کے ہاتھ میں بھی بلا نہیں بلکہ موبائل تھما رکھا تھا۔ اس وقت کہیں گزرتے ہوئے میں نے فوٹو اتار لی کہ چلیں اس معاملے پر بھی بین بجائیں گے۔
لیکن، کچھ دن بعد یہ فوٹو موبائل کی گیلری میں اوپر کہیں چلی گئی اور میرے بھی ذہن سے معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ اب چیمپئنز ٹرافی میں قومی ٹیم نے سوشل میڈیا پر میدان مارا ہے تو سمجھ آئی کہ کسی عقل مند نے مجسمہ بالکل ٹھیک ہی لگایا تھا بس اپنے سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ کیونکہ ایک کھلاڑی کے ہاتھ میں موبائل دے کر یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ ہمارے نزدیک میدان سے زیادہ سوشل میڈیا پر کارکردگی دکھانا اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میچ ہارنے کے فوراً بعد بابر اعظم اشتہار میں تشریف لا کر بتاتے ہیں کہ ہار گئے تو کیا غم ہے، میرے پاس تو ڈیٹا بہت ہے۔