
کشمیری بھی کیا سادہ ہیں…!
تحریر: ضمیر احمد ناز

مسئلہ ریاست جموں و کشمیر پر گفتگو کرنے والے اکثر لوگ ایک بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ یہ تنازع اقوامِ متحدہ، عالمی برادری یا کوئی بڑی طاقت حل کرے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اس مسئلے سے سب سے زیادہ جذباتی وابستگی رکھتے ہیں، وہی اس کے حل کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہیں۔
ہمارےآزادکشمیر کے لیڈر اور کشمیری قیادت جوش و جذبے سے لبریز الفاظ میں آزادی، جہاد اور عوامی حقوق کی بات توکرتے ہیں لیکن صرف اپنے مفادات اور سیاست کے لیے نا ان کے پاس اپنا ویژن ہے نا کوئی روڈ میپ یہی وہ لوگ ہیں جو دہائیوں سے مسئلہ کشمیر کے "پُرزور حامی” ہیں، لیکن جب عملی اقدامات کی بات آتی ہے ان کا عملی کردار نا ہونے کے برابر ہے صرف گفتگو اور سیاست کی حد تک کشمیر کا نام استعمال کرتے ہیں ہمیشہ جذباتی نعرے لگا کر اصل مسئلے سے توجہ ہٹا دی جاتی ہے۔
یہ تلخ مگر ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر اب ایک "انڈسٹری” بن چکا ہے۔ بے شمار تنظیمیں، رہنما اور نام نہاد مفکرین اس مسئلے کے سہارے اپنا روزگار چلا رہے ہیں۔ ان کے بیانات تو انقلابی ہوتے ہیں، لیکن عملی اقدامات صفر۔ کیونکہ اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہو گیا تو ان کے "دفاتر” بند ہو جائیں گے، "فائیو اسٹار جدوجہد” کا خاتمہ ہو جائے گا اور "تحریک کے نام پر فنڈنگ” کے دروازے بھی بند ہو جائیں گے۔
سب سے زیادہ نقصان ان لوگوں نے پہنچایا ہے جو خود کو کشمیری عوام کا خیر خواہ سمجھتے ہیں۔ کبھی مذاکرات کے حق میں بولتے ہیں، کبھی جہاد کا نعرہ لگاتے ہیں، اور کبھی اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر تکیہ کر لیتے ہیں۔ حقیقت میں ان کے لیے عوامی مسائل نہیں بلکہ اپنا اثر و رسوخ اور مالی مفادات زیادہ اہم ہیں۔
سیاحت کے شوقین ہوجائیں خبردار ۔۔:آزاد کشمیر کی وادیوں کا رخ کرنے والوں کیلئے اہم ہدایت نامہ جاری
کشمیر پر دیے گئے بیانات چاند کی روشنی کی طرح ہیں—دور سے دیکھیں تو حسین، لیکن قریب جا کر معلوم ہوتا ہے کہ نہ گرمی ہے نہ روشنی، بس ایک دھوکہ۔
کوئی رہنما کہتا ہے، "ہم آزادی کے قریب ہیں!”
دوسرا اعلان کرتا ہے، "ہم خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے!”
تیسرا کہتا ہے، "اگلی عید سرینگر میں منائیں گے!”
لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں جانتا کہ اصل حل کیا ہے۔
سب سے پہلے ہمیں ان نام نہاد خیر خواہوں کو پہچاننا ہوگا جو اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے لیے کشمیر ایک "تحریک” نہیں، بلکہ ایک "کاروبار” ہے۔ جب تک یہ طبقہ قابض رہے گا، تب تک کشمیر ایک فٹ بال بنا رہے گا، جسے کبھی اقوامِ متحدہ کے گراؤنڈ میں، کبھی سفارتی میدان میں اور کبھی جنگی نعروں کے اسٹیڈیم میں ٹھوکر ماری جاتی رہے گی۔
کشمیریوں کی خواہشتات کے بغیر مسئلہ کشمیر کا دیر پا حل ممکن نہیں
اصل تبدیلی تب آئے گی جب عام کشمیری اور باشعور لوگ ان نمائشی رہنماؤں کے چنگل سے نکل کر عملی جدوجہد کریں گے—جو حقیقی معنوں میں عوامی مفاد پر مبنی ہو، نہ کہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے والی گفتگو۔
ہم کشمیریوں کو دوسروں پر تکیہ کرنے کی روش کو ترک کرنا ہوگا اور خود انحصاری کو اپنانا ہوگا۔ ذاتی مفادات اور مالی لالچ کو پسِ پشت ڈال کر کشمیریت کو ترجیح دینی ہوگی۔ ہمیں خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا تاکہ معلوم ہو کہ ہمارے اصل دشمن کون ہیں—وہ جو کھلم کھلا ہمارے خلاف ہیں، یا وہ جو ہمارے درمیان رہ کر ہماری تحریک کو کمزور کر رہے ہیں؟
سب سے پہلے، ہمیں جبری اور غیر فطری ریاستی تقسیم کی لکیر ختم یا غیر مؤثر کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ شملہ معاہدہ، جس نے کشمیر کو پاک بھارت کا "اندرونی مسئلہ” بنا دیا، اس سے برات کا اعلان کرنا ہوگا اور اسے انسانی حقوق کا مسئلہ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ جب تک ہم اس تنازعے کو ایک بین الاقوامی انسانی مسئلے کے طور پر اجاگر نہیں کرتے، عالمی برادری اسے سنجیدگی سے نہیں لے گی۔
پاک بھارت جنگ میں “رافیل “کی طرح “بھارتی میڈیا “کی کریڈبیلیٹی بھی صفر ہو گئی ۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آزادی صرف نعرے لگانے سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے حاصل ہوتی ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت تب تک ہماری مدد نہیں کرے گی جب تک ہم خود اپنے حقوق کے لیے منظم، باشعور اور عملی جدوجہد نہیں کریں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر تحریک کی کامیابی کا راز خود انحصاری، قربانی اور اتحاد میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ جب تک کشمیری عوام خود فیصلہ نہیں کریں گے کہ وہ اپنے مستقبل کے لیے کیا چاہتے ہیں، تب تک وہ دوسروں کے فیصلوں کا شکار رہیں گے۔
مسئلہ کشمیر کو محض ایک سیاسی تنازعہ سمجھنے کے بجائے اسے ایک بین الاقوامی انسانی حقوق کا مسئلہ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر اندھا اعتماد کرنے، عالمی برادری کے جاگنے کا انتظار کرنے اور آزادکشمیر کےروایتی سیاستدانوں کے کھوکھلے نعروں پر یقین کرنے کے بجائے، ہمیں اپنی تحریک کو ایک مؤثر، عملی اور زمینی سطح پر مضبوط حکمت عملی کے تحت آگے بڑھانا ہوگا۔
ورنہ ہم ایک بار پھر اس انجام سے دوچار ہوں گے جس کا ذکر میر تقی میر نے کیا تھا:
میر کیا سادہ ہیں کہ بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں!